قسم کی گھٹیا گفتگو کررہے ہو۔ میں یہ کیا سن رہا ہوں؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا خیال نہ ہوتا تو میں اس بدتمیزی پر تمھاری گردن اڑا دیتا۔ تمھیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم ایسی واہیات گفتگو کرو؟!
ادھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اخلاق ملاحظہ کیجیے کہ آپ زید بن سعنہ کی یہ نامناسب اور بے تکی گفتکو سن کر بھی مشتعل نہیں ہوئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مخاطب ہوکر فرمایا:’’عمر! ایسی بات نہ کہو۔تمھیں چاہیے تھا:
( أَنْ تَأْمُرَنِي بِحُسْنِ الْأَدَائِ وَتَأْمُرَہُ بِحُسْنِ التَّقَاضِي)
’’مجھ سے کہتے کہ میں اس کاقرض خوش اسلوبی سے ادا کردوں اور اسے سمجھاتے کہ قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو۔‘‘
یہودی عالم سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی اس بلندی اور روح کی اس پاکیزگی کے سامنے مبہوت ہو کرکھڑا ہے اور یہ گفتگو سن رہا ہے۔
قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کیا حکم دیا:
( یَا عُمَرُ! خُذْہُ وَأَعْطِہِ حَقَّہُ وَزِدْہُ عِشْرِینَ صَاعاً مِنْ تَمْرٍجَزَائَ مَا رَوَّعْتَہٗ )
’’ اے عمر! اسے ساتھ لے جا کر اس کاحق ادا کرو اوراسے بیس صاع (پچاس کلو) کھجوریں زیادہ ادا کرو، یہ اس چیز کا بدلہ ہے جو تم نے اس کو دھمکایا ہے۔‘‘ زید بن سعنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو پوری توجہ سے سن رہاتھا۔ وہ حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق تبسم کناں ہیں۔ بلاشبہ آپ کا حلم غصے پرسبقت لے گیا ہے۔
زید بن سعنہ کہتا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ مجھے ساتھ لے کر بیت المال گئے۔ میرا قرض واپس کیا اور حسب ہدایت بیس صاع کھجوریں زیادہ دیں۔ جب میں نے کھجوریں وصول کرلیں تو سیدنا عمر فاروق سے کہا:یہ
|