Maktaba Wahhabi

117 - 342
فرمایا:(أَعْجِلْ عَلَیْھِمْ وَأَغِثْھُمْ بِھَا) ’’جلدی ان کے پاس پہنچو اوراس مال سے اپنی قوم کی مدد کرو۔‘‘ وہ شخص دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے میں چند روز ابھی باقی تھے، مگر میں نے آپ کے تحمل وبردباری کو جانچنے کا فیصلہ کرلیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ایک جنازے میں شرکت کے لیے بقیع الغرقد میں تشریف لے گئے تھے۔ جب آپ جنازے سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پکڑلی اور اسے خوب زور سے کھینچا۔ چادر آپ کے کندھے سے اتر گئی۔ میں نے ساتھ ہی نہایت کرخت لہجے میں کہا: (أَدِّ مَا عَلَیْکَ مِنْ حَقٍّ وَمِنْ دَیْنٍ یَا مُحَمَّدُ! فَوَاللّٰهِ مَا عَلِمْتُکُمْ یَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! إِلَّا مُطِلًّا فِي أَدَائِ الْحُقُوقِ وَسَدَادِ الدُّیُونِ) ’’اے محمد ! میرا حق اور میراقرضہ واپس کرو، اللہ کی قسم! تم عبدالمطلب کی اولاد حقوق کی ادائیگی اور قرض کی واپسی میں جان بوجھ کر تاخیر کرتے ہو۔‘‘ قارئین کرام! ذرا اوپر والے الفاظ پر غور کیجیے۔ زید کا مطالبہ بڑا ہی غیر معقول اور ناجائز تھا۔ ابھی وعدے کی مدت میں کئی دن باقی تھے۔ پھر انداز ایسا براکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے خاندان کو درمیان میں گھسیٹ لیا۔ یہ بد تمیزی، یہ بد اخلاقی کسی بھی شخص کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھی۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اس موقع پر موجود تھے اور اس یہودی کی بکواس سن رہے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہرزہ سرائی سنی تو خاموش نہ رہ سکے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ گویا ہوئے:او اللہ کے دشمن! تمھاری یہ جرأت کہ تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس
Flag Counter