Maktaba Wahhabi

27 - 89
( لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا) ] سورہ فرقان :3 [ یعنی:’’انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو معبود بنا رکھا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں، اپنے نفع ونقصان کے بھی مالک نہیں ہیں، نہ ہی موت و حیات اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کی ملکیت رکھتے ہیں۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ( أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ ) ] سورہ اعراف :192، 191 [ یعنی: ’’کیا یہ لوگ ان لوگوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ نہ ہی انکی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘ ………………………. اجرام فلکی پر ایک نظر اور مشرکانہ عقائد کا بطلان مشرک عقل کا اندھا ہوتا ہے، اسی لئے وہ کئی خداؤں کا بندہ ہوتا ہے، ابراہیم علیہ السلام کی قوم جہاں نمرود کو خدا مانتی تھی وہاں بتوں کی پجاری بھی تھی، یہیں پر بس نہیں بلکہ سورج، چاند، تاروں کی پوجا بھی کرتی تھی، وہ لوگ ان کی تاثیر کے قائل تھے اور انہیں نفع ونقصان کا مالک سمجھتے تھے ۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خداداد بصیرت کے تحت تبلیغ کے لیے عقلی دلائل کی حکمتوں کا اصول اپنایا اور حجتِ قاطعہ کے ساتھ ان فلکی خداؤں کی تردید کرکے قوم کو لاجواب کیا۔ [1]
Flag Counter