ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعت نے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ سلوک کو جہاد پر مقدم ٹھہرایا ہے۔
ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں صاحب اولاد ہوں۔ میرے پاس کچھ مال ہے، میرا والد اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
"تم بھی اپنے باپ کے ہو اور تمہارا مال بھی۔ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔" (سنن ابی داؤد: 3528)
مسند امام احمد کی روایت میں ہے:
(فكلوه هنيئاً)
"یعنی ان کی کمائی سے مزے لے کر کھاؤ۔" (مسند احمد: 2/179)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تم سے نیک سلوک کرے۔" (مجمع الزوائد: 8/138 وقال رواہ الطبرانی الاوسط، ورجالہ رجال الصحیح)
اگرچہ اسلام نے ماں اور باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا ہے، لیکن ماں کے بارہ میں بہت زیادہ زور دیا۔ چنانچہ جب ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں، عرض کیا گیا: پھر کون؟ فرمایا: "تیری ماں" پوچھا گیا پھر کون؟ فرمایا: "تیری ماں" پھر پوچھا گیا: پھر کون؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری: 10/5971 مسلم، رقم: 2548)
والدین سے نیک سلوک کرنا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لئے کوئی توبہ کی سبیل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تیری ماں ہے؟" اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا "تمہاری خالہ ہے؟" اس نے کہا: ہاں۔ فرمایا: "جا اس کے ساتھ جا کر حسن سلوک کر۔" (سنن الترمذی: 1554، مستدرک حاکم: 2/155)
|