سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عورت کے اس کے جمال، اس کے مال، اس کے اخلاق اور اس کی دینداری کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔ تم اس کی دینداری اور اس کے اخلاق کے سبب کو لازم کر لو۔
(مسند احمد: 3/80، ابن حبان، رقم: 4026، مسند البزار، رقم: 1403، مستدرک حاکم: 2/161، مسند ابی یعلی، رقم: 1012)
ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں:
(تُنْكَحُ المَرْأَةُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ)
"عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: دولت کی وجہ سے، خاندانی وجاہت کی وجہ سے، خوب صورتی کی وجہ سے اور دین داری کی وجہ سے، تم دیندار عورت سے نکاح کرنے میں کامیاب ہو جاؤ۔ تمہارے ہاتھ گرد آلود ہوں۔"
(بخاری، رقم: 5090، مسلم، رقم: 1466، وایضاً اخرجہ ابوداؤد والنسائی فی النکاح، مسند الدارمی: 2/133، سنن کبریٰ بیہقی: 7/79، ابن حبان: 9/344، شرح السنہ: 9/7، مسند احمد: 2/428، ابن ماجہ، رقم: 1859، مسند ابی یعلی: 11/451، حلیۃ الاولیاء: 8/385)
اس سلسلہ میں ایام یافعی رحمہ اللہ نے ایک حکایت بھی نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے والد مبارک ایک غلام تھے جو اپنے آقا کے باغ میں کام کرتے تھے۔ ایک روز آقا نے ان سے اپنی بیٹی کے بارے مشورہ کیا جس کے بارے میں کئی لوگوں کے پیغام آ چکے تھے۔ آقا نے کہا: مبارک! بتاؤ، میں کس سے اپنی بچی کی شادی کروں؟ مبارک نے کہا: "یا سیدی! نکاح کے معاملہ میں لوگوں کی اغراض مختلف ہیں۔ اہل جاہلیت تو خاندانی وجاہت پر شادی کرتے تھے، اور یہود مال کے لیے اور عیسائی جمال اور خوب صورتی کے لیے، لیکن س امت کے لوگ دین کے لیے شادی کرتے ہیں، یعنی ان میں سے جو نیک لوگ ہیں وہ عورت کی دینداری کے باعث اس سے شادی کرتے ہیں۔ جب آقا نے
|