اور میں اس سے گرگیا۔ میں نے اُٹھ کر ترکش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور پانسے کے تیر نکال کر یہ جاننا چاہا کہ میں انھیں ضرر پہنچاسکوں گا یا نہیں تو وہ تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا، لیکن میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا، یہاں تک کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سن رہا تھا… اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے، جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بار بار مڑ کر دیکھ رہے تھے۔ تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے، یہاں تک کہ گھٹنوں تک جاپہنچے اور میں اس سے گرگیا، پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔ بہرحال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اُس پاؤں کے نشان سے آسمان کی طرف دھویں جیسا غبار اُڑ رہا تھا۔ میں نے پھر پانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا۔ اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انھیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہرگئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا۔ جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا، اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ غالب آکر رہے گا، چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلے دیت(کا انعام)رکھا ہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا اور توشہ اور سازو و سامان کی بھی پیش کش کی مگر انھوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری برتنا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پروانۂ امن لکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ کو حکم دیا اور انھوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کردیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ [1] اور پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے،جو کہ مسلمان ہوگئے تھے اس بات کا وعدہ فرمایا کہ وہ ایران کی فتح کے بعد کسریٰ فارس کے ہاتھ کے کنگن پہنے گا۔ اور یہ بات |