ج:۳۷… نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ چچا جو حالت شرک و کفر میں ہونے کے باوجود آپ کا دفاع کیا کرتا تھا، اُس کانام ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب تھا۔ اور ابوطالب جب بیمار ہوا اور اس وقت اُس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابوامیہ بیٹھے ہوئے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:((أَيْ عَمِّ قُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، کَلِمَۃً أُحَاجُّ لَکَ بِھَا عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))… ’’ چچا جان! صرف ایک بار کلمہ توحید کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہہ دو، میں قیامت والے دن اس کلمہ کی بنا پر تمہارے لیے اللہ عزوجل سے پرزور شفاعت و گزارش کرلوں گا۔ ‘‘ ابوجہل اور عبداللہ بن ابوامیہ کہنے لگے:اے ابوطالب! کیا تو(مرتے وقت اپنے باپ)عبدالمطلب کے مذہب و ملت سے رُخ پھیرلے گا؟ پھر یہ دونوں برابر اُس سے بات کرتے رہے، یہاں تک کہ آخری بات جو ابوطالب نے لوگوں سے کہی، یہی تھی کہ:وہ عبدالمطلب کی ملت پر فوت ہورہا ہے۔ اور اس کے بعد وہ فوت ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بہت دُکھ پہنچا۔ اور پھر فرمایا:((لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہُ عَنْکَ۔))… ’’ میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں(اے چچا ابوطالب!)آپ کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہی رہوں گا۔ ‘‘ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمادیں:[1] ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ o﴾(التوبۃ:۱۱۳) ’’ پیغمبر کو نہیں چاہیے نہ ایمان والوں کو کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دُعا مانگیں گو وہ اُن کے رشتہ دار ہوں، جب اُن کو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ(یعنی مشرک)دوزخی ہیں۔‘‘ |