ج:۳۳… مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو(اپنی خباثت و عداوت اور حسد و بغض کی بنا پر)ابتر کا کلمہ استعمال کیا تھا… تو اس کا مطلب ہوتا ہے:وہ شخص کہ جو بے نسل ہو(ناٹھا)اور اس کی وفات کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہ رہے۔ کافروں حاسدوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات اس لیے کہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد(بیٹے)نہیں تھے۔ اور اُن کے گمان میں آپ کی وفات کے بعد آپ کا کوئی ذکر ہی دُنیا میں نہ رہے گا(اور نہ کوئی آپ کا نام لیوا ہوگا، نہ ہی آگے نسل بڑھ سکے گی)… تو اللہ عزوجل نے ان کے اس گمانِ باطل کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا کہ:نہیں بلکہ معاملہ اُلٹ ہے، ان ظالموں، اللہ کے دشمنوں کا ہی دُنیا سے نام و نشان اور اچھا ذکر مٹ جائے گا۔ فرمایا:﴿إِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرْ﴾… ’’ اے ہمارے حبیب و خلیل بندے!(آپ کہیں ان کی باتوں سے ملول نہ ہوجانا۔ بات یہ ہے کہ)تمہارا دشمن(جو اللہ کا بھی دشمن ہے)بے نسل اور نگوڑا ناٹھا ہے۔ ‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و حسد اور عداوت رکھنے والا ہی مقطوع الذکر ہوگا(اس کا ہی کوئی نام لیوا نہ ہوگا)اور جہاں تک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر اور آپ کے ذکر و نام کا تعلق ہے تو بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی شان بھی بلند فرمائی اور آپ کا ذکر خیر بھی دنیا میں یوں کہہ کر بلند فرمادیا: ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾(الانشراح:۴) ’’اور ہم نے تیرا نام بلند کر دیا۔‘‘ فائدہ:… یعنی انبیاء اور فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اور دنیا و آخرت میں آپ کے نام کا چرچا کیا۔چنانچہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیتا مگر اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔ کلمۂ شہادت، اذان،اقامت، خطبہ اور تشہد وغیرہ میں۔ |