Maktaba Wahhabi

95 - 125
کلام کی کوئی حد نہیں ہے۔(ص) ﴿ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰهَ ہُوَ الْحَقُّ۔۔۔وَأَنَّ اللّٰهَ ہُوَ الْعَلِیُّ۔۔﴾ علی خلقہ بالقہر (۸۴۴ /۳۴۸) ٭ یہاں پر سورہ رعد کی آیت نمبر(۹)کی تفسیر اور اس کا حاشیہ ملاحظہ ہو۔ ﴿إِنَّ اللّٰهَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ۔۔۔۔عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾ روی البخاری۔۔۔۔إلی آخر السورۃ(۸۴۵ /۳۴۸) ٭ بخاری(۴۶۲۷) سورۃ السجدۃ ﴿یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء ِ إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ۔۔۔۔﴾ یرجع الأمر والتدبیر(۸۴۶ /۳۴۹) ٭ سلف کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’عروج‘‘ بمعنی ’’صعود‘‘(یعنی اوپر کو چڑھنا)ہے۔فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر آتے ہیں اور اسی کے حکم سے اوپر کو چڑھ کر اس کے پاس جاتے ہیں،اس سے مخلوق پر اللہ تعالیٰ کے ’’علو‘‘ کی صفت ثابت ہوتی ہے۔ سورۃ الأحزاب ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ۔۔۔﴾ فزوجہا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم لزید۔۔۔وفي نفس زید کراہتہا (۸۶۲ /۳۵۴) ٭ یہ ایک من گھڑت کہانی ہے جس کو منافقوں نے پھیلایا ہے اور یہ بالکل بے بنیاد بات ہے،اور صحیح بات یہ ہے کہ جاہلیت میں یہ تصور عام تھا کہ متبنی ہر چیز میں حقیقی بیٹے کے درجے میں ہوتا ہے،اور باپ پر بیٹے کی بیوی کی حرمت بھی معلوم تھی،جب اللہ تعالیٰ نے تبنی کو باطل قرار دیااور حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو نبی
Flag Counter