Maktaba Wahhabi

86 - 125
سورۃ الحج ﴿حُنَفَاء لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہِ﴾ ۔۔وھما حالان من الواو (۶۸۸ /۲۸۲) ٭ یعنی ’’اجتنبوا‘‘ میں جو واو ہے اس سے حال واقع ہیں ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ﴾ المعنی أنہ یعاقبہم(۶۸۹ /۲۸۲) ٭ یہ بات گزر چکی ہے کہ محبت اور بغض،یہ اللہ تعالیٰ کی دو صفتیں ہیں،ان کے لازمی معنی سے ان کی تاویل کرنا جائز نہیں ہے۔(ص) ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ۔۔۔شِقَاقٍ بَعِیْدٍ﴾ ۔۔ذکر آلہتہم بما یرضیہم ثم أبطل ذلک (۶۹۳ /۲۸۴) ٭ اہل تحقیق کا کہنا ہے کہ غرانیق والا واقعہ درست نہیں ہے،وہ نہ سند کے اعتبار سے ثابت ہے نہ متن کے اعتبار سے۔اور یہ کہ اس واقعہ میں آیت کا جو معنی بیان ہوا ہے وہ معنی درست نہ ہو کر آیت کا ایک دوسرا معنی ہے۔اس سلسلے میں ایک قول تو یہ ہے کہ ’’تمنی‘‘ سے مراد ’’قراء ۃ‘‘ ہے۔ اور شیطان کے القاء سے مراد یہ ہے کہ شیطان ایسے شبہات اور اباطیل کا القاء کرتا ہے جن کا کلام میں احتمال ہوتا ہے حالانکہ متکلم ایسا ارادہ نہیں کرتاہے،یا یہ کہ کلام سرے سے ان شبہات کا احتمال ہی نہیں رکھتامگر پھر بھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کا یہی مفہوم ہے،یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اپنے زعم میں اللہ کا مقابلہ کرتے ہیں اور حق کی مخالفت جن کا شیوہ ہوتا ہے،یہ لوگ شکوک و شبہات کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔یہاں القاء کی نسبت شیطان کی طرف اس وجہ سے کی گئی ہے کہ شیطان ہی وسوسہ ڈال کر شبہات کو ابھارتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں ’’تمني ‘‘’’أمنیۃ‘‘(بمعنی آرزو)سے ماخوذ ہے۔اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی یا رسول کو قوم کی ہدایت کے لیے بھیجتا ہے تو اس رسول و نبی کی پوری کوشش اور تمام تر آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کی قوم ایمان لے آئے،
Flag Counter