Maktaba Wahhabi

73 - 125
۱۔یہ کلام اس عورت کے کلام سے بالکل متصل ہے کیونکہ اس عورت نے کہا تھا(الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَاْ رَاوَدتُّہُ عَن نَّفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ،ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْْبِ وَأَنَّ اللّٰهَ لاَ یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ،وَمَا أُبَرِّیُٗ نَفْسِی۔۔۔۔) ۲۔جس وقت عورت اپنی باتیں کہہ رہی تھی اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام وہاں موجود نہ تھے بلکہ جیل میں تھے،آیت کا سیاق اس پر صریح دلالت کرتا ہے۔ ۳۔عورت کے اس قول﴿لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْب﴾کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسف کی براء ت کا میری جانب سے اقرار اسی لیے ہے تاکہ یوسف جان لیں کہ میں نے ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں جھوٹ بول کرخیانت نہیں کی،اگرچہ شروع میں ان کے سامنے ان کی خیانت کی تھی۔(ص) ﴿وَکَذَلِکَ مَکَّنِّا لِیُوسُفَ فِیْ الأَرْضِ۔۔﴾ وفی القصہ ان الملک توجہ۔۔۔۔وولدت لہ ولدین(۴۹۷ /۱۹۴) ٭ یہ اسرائیلی خرافات ہے،کسی نبی کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کسی عورت کو بدکاری کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہو پھر اسی سے شادی کریں اوراسے اپنے گھر کی ملکہ بنائیں۔(ص) سورۃ الرعد ﴿عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ﴾ علی خلقہ بالقہر۔(۵۱۲ /۲۰۱) ٭ اللہ تعالیٰ کے لیے ’’علو‘‘ کے جو معانی ثابت ہیں یہ ان میں سے ایک ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی مخلوق پر بطور قہر غالب ہے،اسی طرح وہ کامل ہے اور ہر خرابی اور عیب سے
Flag Counter