Maktaba Wahhabi

10 - 15
ہے۔انتظامیہ کی چشم پوشی کہیے یا سستی کہ وہ اس طرف توجہ نہیں دیتی۔لیکن بعض ریاستوں میں ہم نے دیکھاکہ اس قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں یہ قانون عملا نافذ ہے۔وہاں کے لوگ اپنے جلسے عصر کے بعد یا مغرب کے بعد شروع کرکے دس بجے تک ختم کردیتے ہیں۔کاش شمالی ہند میں بھی ایسے ہی ہوتا۔ میرے نزدیک جلسوں کی اصلاح کے باب میں یہ نقطہ سب سے اہم ہے کہ دیر رات تک جلسوں کا استمرار ختم کیا جائے اور ہر حال میں گیارہ سے ساڑھے گیارہ تک اختتام کو یقینی بنایا جائے۔ جلسوں کے اخراجات: جلسوں میں اخراجات کئی طرح کے ہوتے ہیں : لاؤڈ اسپیکر،روشنی،فرش،کرسی،شامیانہ،کھانا،مقررین کا نذرانہ،اشتہار وغیرہ وغیرہ۔ ان اخراجات کو ضرورت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔حاجیات،تحسینیات۔حاجیات سے مراد وہ اخراجات ہیں جو بہرحال لازمی اور بنیادی ہیں ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا،مثلا: لاؤڈ اسپیکر،روشنی اور فرش وغیرہ کے اخراجات۔ان اخراجات کو بہر حال سہنا ہی پڑے گا،الا یہ کہ مسجدوں میں جلسے منعقد ہوں تو وہاں ان بنیادی اخراجات سے بھی بچا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ ساری سہولتیں وہاں میسر ہوتی ہیں۔اگر مقررین ’’نذرانہ‘‘ والے ہیں تو یہی ایک قابل ذکر خرچ ہوگا ورنہ یہ بھی نہیں۔معمولی خرچ اشتہارات وغیرہ پر آسکتاہے۔ رہ گئے بقیہ اخراجات جنھیں تحسینیات کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے اس سے مراد وہ اخراجات ہیں جن کے بغیر بھی جلسہ ہو سکتا ہے اور ہوتا رہتا ہے،جیسے سامعین کے لیے کھانے کا انتظام(جس سے مقصد یہ ہو کہ اس کی وجہ سے لوگ جلسہ سننے کے لیے آئیں گے،
Flag Counter