Maktaba Wahhabi

49 - 110
4۔ علامہ مجدالدین فیروز آبادی بھی حصولِ علم کے لیے اسی طرح محنت کرتے تھے کہ روزانہ چار سو سطریں حفظ کر لیتے تھے۔[1] 5۔ علامہ ابو اسحاق شیرازی بھی اپنے تمام اسباق،جو اساتذہ سے حاصل کرتے تھے،ان کو روزانہ بلاناغہ سو سو بار تکرار کر کے حفظ تک پہنچا دیتے تھے۔آپ مدرسہ نظامیہ بغداد کے صدر مدرس بھی تھے اور شہیرِ خلائق اور ایسے نامور تھے کہ جب مولانا سفر میں نکلتے تو خوشی میں شہر والے اپنے دکان کے سامان لٹاتے۔شیخ منع بھی فرماتے،لیکن اسی قدر جوش و خروش بڑھتا رہا۔[2] آج کے طلبا: لیکن آج کل کے طلبہ میں یہ خوبی ہے نہ محنت و مشقت کی عادت،نہ تو وہ اپنے اسباق کا سو سو بار تکرار کرتے ہیں نہ ایسا ذوق و شوق رکھتے ہیں،بلکہ دو چار دفعہ بھی تکرار کرنا ان کے لیے مشکل ہے،اسی طرح نہ آگے والے اسباق کا مطالعہ کرتے ہیں نہ تدریس کی تیاری۔پھر قرآن کریم کے حفظ کا موقع بھی نہیں نکال سکتے نہ فیروز آبادی کی طرح چار سو سطریں حفظ کر سکتے ہیں۔جب وہ محنت ہی نہیں تو وہ نتائج کہاں سے برآمد ہوں جو محنتوں پر موقوف ہیں ؟! آج کے زمانے میں ہر طالب علم چاہتا ہے کہ ہم رازی بن جائیں،غزالی جیسے امام بنیں اور سیوطی جیسے عظیم مصنف ہو جائیں،لیکن ان کی طرح محنت نہیں کرتے،حالانکہ رفع درجات اور بلند مراتب حاصل کرنے کے لیے محنت اور کد و کاوش شرط ہے۔حالی مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے:
Flag Counter