Maktaba Wahhabi

33 - 107
انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔جس سے ان کی اطاعت خدمت اور ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ان کے سامنے عاجزی اختیار کیے رکھنے کا حکم دیا ہے۔بسا اوقات جوانی کے شوق ، جدید علوم اور جذبات اور بڑھاپے کے تجربات میں تصادم ہوتا ہے اس وقت والدین کے ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔لیکن کامیاب وہی ہے جو ان حالات میں ان تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔بعض معاملات میں ان کی رضا مندی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کے لئے نکاح کے موقع پر والد کی رضا مندی کو لازم قرار دیا ہے۔ ((لا نکاح إلا بولي))’’ ولی کے (والد کی رضا مندی) کے بغیر نکاح نہیں ہے۔‘‘ نکاح کے موقع پر خاتون کی رضا مندی پوچھی جائے گی، والد کا متفق ہونا بھی ضروری ہے۔اگر خاتون اور والد کا اتفاق نہ ہو سکے یا والد اپنی مرضی زبردستی مسلط کرنا چاہے تو اس صورت میں خاتون کو حق حاصل ہے کہ کوئی حل نظر نہ آنے کی صورت میں مسلمان قاضی ( جج) کی معاونت طلب کرے۔جبکہ والدین کو بتائے بغیر کورٹ میرج کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ایسا کرنے والے اسلام کی حکم عدولی اور والدین کی نافرمانی کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں۔ 2۔شوہر کی نافرمانی سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفران العشیریعنی شوہر کی نافرمانی کا کیا مطلب ہے؟ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: "العشیر: الزوج، قيل له: عشیر بمعنی معاشر مثل أکیل و
Flag Counter