Maktaba Wahhabi

24 - 43
نے جواب دیا:ہاں ! میں اس طرح کہتاہوں :’’اے اللہ جو بھی سزا آخرت میں میرے لئے ہے،وہ اِسی دنیا میں مجھے دے دے۔‘‘ اِس کے جواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ہے!تم اُس کی سزاکو برداشت نہیں کرسکتے۔ بہتر تھا کہ تم اس کی بجائے یوں کہتے:’’اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما اور ہمیں عذابِ جہنم سے نجات دے۔‘‘ ’’اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اُس کے تندرست ہونے کی دعاء مانگی اور اللہ نے اسے تندرست کردیا۔‘‘ ثانیاً:مصیبتوں کی تمنَّا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی آسانیوں اور درگزاریوں کی صفت سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ہمیں یہ تاکید کی گئی ہے کہ ہم اپنی صحتیابی اور درگزاری کیلئے دعاء کیا کریں ۔اللہ جو بلند وبالا ہے، اس نے قرآن میں یہ دعاء سکھلائی ہے: {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْراً کَمَا حَمَلْتَہ‘ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا} (سورۃالبقرہ:۲۸۶) ’’اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جوتو نے ہم سے پہلے لوگوں پرڈالا تھا۔‘‘ اگر اللہ آسانیاں عطاء کرے۔ مؤمن کو چاہیئے کہ جب اللہ تعالیٰ اُس کو آسانی عطاء کرتا ہے تو وہ اُس کا شکرادا کرے،اور کم از کم یہ ہر گزنہ سمجھے کہ یہ سب اس کے تقویٰ اور سچائی کا نتیجہ ہے۔کیونکہ صرف دنیوی مصائب ومشکلات ہی آزمائش نہیں بلکہ فراغت،دولت اور خوش حالی بھی آزمائشوں کا
Flag Counter