Maktaba Wahhabi

14 - 37
وعدہ فرمایا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ اگر موجودہ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے ، اور انہیں اس کی اطاعت میں کھپایا جائے تو نہ صرف وہ نعمتیں بحال رہتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے ، اور اپنے شکرگذار بندوں کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ناشکری کرنے والوں کو سخت تنبیہہ بھی کی ہے کہ وہ ان کی ناشکری کی بناء پر ان سے موجودہ نعمتوں کو چھین کر انہیں مصائب وآفات میں گرفتاربھی کر سکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ نیزسورۃ النسآء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : { مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکاَنَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا} (سورۃ النسآء : ۱۴۷) ’’اگر تم لوگ ( اللہ کا ) شکر ادا کرو، اور ( خلوص نیت سے ) ایمان لے آؤ ، تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھیں عذاب دے ! جبکہ اللہ تو بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘ ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر سچا مومن اور اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہو تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اسے آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ، بلکہ وہ تو قدر دان ہے اور اپنے بندوں کے جذباتِ تشکرکو دیکھ کر انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے ۔۔ یادر ہے کہ شکر،دل اور زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بجا لانا ضروری ہے ، اور سچا شاکر وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ احسانات کرتا ہے تو وہ اس کی پہلے سے بھی زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے ، اور وہ جتنا اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے اتنا ہی اس کے جذباتِ محبت واطاعت زیادہ جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے ، جیسا صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام کیاکرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر ورم آجاتا ، اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پوچھتیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو اللہ تعالیٰ نے اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :
Flag Counter