Maktaba Wahhabi

24 - 61
’’ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جو روزی میں تنگ دست ہے تو وہ اتنا ہی خرچ کرے جتنا کہ اللہ نے اس کو دیاہے۔‘‘ (سورۂ طلاق:۷) اس آیتِ کریمہ میں بھی مردوں کو اپنی عورتوں پر خرچ کرنے کی تاکید ہورہی ہے۔ اگر مرد تنگ دست ہوتوبھی اسے ہی اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ تنگ دستی کے باوجود اپنی عورتوں کے ہاتھوں کو تکنا مردوں کے شایانِ شان نہیں۔ آج ہم بڑے زور وشور سے والدین کا واویلا سنتے ہیں کہ آج کل کے لڑکے شادی ہوتے ہی ماں باپ کے نافرمان ہوجاتے ہیں،بیوی اور سسرال کی طرفداری کرتے ہیں اوراپنے ماں باپ کو بھول جاتے ہیں وغیرہ۔ یادرہے کہ ان کے شکوہ وشکایت میں کوئی وزن نہیں کیونکہ یہ بھی انہی کی کوتا ہی کا انجام ہے۔ بیٹے کی شادی میں لڑکی والوں سے جہیزجوڑے کی رقم لیکر اپنے بیٹے کو وہ بیوی کا احسان مند بنادیتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی بیوی کا خریدا ہواشوہر ہوتا ہے جو کچھ وہ پہنتا ہے، اوڑھتا ہے، کھاتا، پیتا ہے، سب سسرال کی دین ہے۔ احسان مند کو محسن کا احسان ادا کرنا پڑتا ہے۔ دولہا اپنی دلہن کا مال ناجائز طور پر کھا کر اپنے سسرال کے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوتا ہے لہٰذا اب اس دولہے کو سسرال کا وفادار بن کر ہی رہنا پڑے گا۔ ایسے میں والدین کی فرماں برداری میں کوتاہی باعث ِتعجب نہیں۔ والدین کی اس نافرمانی کے گناہ میں لڑکے کے ساتھ خود والدین بھی برابر کے شریک ہوگئے۔ اب آئیے اس سکّہ کا دوسرارخ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ لڑکی والے بھی اس لین دین کی برائی میں برابر کے شریک ہیں۔ لڑکی والوں کو سراسر مظلوم نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ معاشرہ کی اس خرابی میں ان کا بھی برابر کا ہاتھ ہے۔ لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کیلئے عیش وعشرت کی زندگی کا خواب دیکھتے ہوئے سیدھے سادھے اوسط آمدنی والے لڑکوں کے رشتوں کو ٹھکر اکر بڑی بڑی آمدنی والوں سے رشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اپنی حیثیت سے زیادہ سوچتے ہیں۔ لڑکے کی کمائی کا ذریعہ حلال ہو یا حرام
Flag Counter