Maktaba Wahhabi

509 - 829
اس سلسلہ میں وارد صریح روایات جو امام کی ’’تحمید‘‘ کے جواز پر نص ہیں۔ ’’بخاری اور ’’مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ’’بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ’’مسلم میں عبد اﷲ بن ابی اوفٰی اور علی بن ابی طالب سے منقول ہیں۔ ان میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے وصف میں بیان ہوا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘ پڑھتے۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: ’’ فَھٰذَا صَرِیحٌ فِی مَشرُوعِیَّۃِ التَّحمِیدِ لِلاِمَامِ‘‘ (۱؍۶۳۶) یعنی پس یہ واضح ہے، کہ امام کے لیے ’’تحمید‘‘ مشروع ہے۔ بعض لوگ اس مقام پر شُبہ پیش کرتے ہیں کہ تقسیم والی حدیث ’’قولی‘‘ ہے، جب کہ جمع والی ’’فعلی‘‘ ہے، جب کہ اصولی قاعدہ ہے، کہ قول کو فعل پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اس اشکال کا حل یوں ہے، کہ یہ قاعدہ وہاں جاری ہوتا ہے جہاں قولی حدیث فعلی کے خلاف ہو۔ جب کہ مقامِ بحث میں سِرے سے تعارض کا وجود ہی معدوم و مفقود (موجودنہیں) ہے۔ بعض نے یہاں یہ بھی مفروضہ قائم کیا ہے۔ شاید آپ کا فعلِ جمع نفلی نماز میں منحصر ہو۔ جواباًعرض ہے، کہ یہ بات بھی بعید از قیاس ہے۔ کیونکہ غالب اَحوال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام کی حیثیت میں ہوتے تھے۔ پھر لیت و لعل اور مفروضوں پر بناء رکھنا دانشمندی سے بعید ، بلا فائدہ اور غیر معقول شی ٔ ہے۔ بلکہ ’’صحیح بخاری ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں صبح کی نماز کی صراحت موجود ہے۔ یاد رہے سرتاج حنفیہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’السعایۃ‘‘ میں اسی بات کو ترجیح دی ہے، کہ امام ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے۔ فرماتے ہیں: (( لٰکِنَّ الدَّلِیلَ یُسَاعِدُ الجَمعَ ۔ فَھُوَ الأَحَقُّ بِالاِختِیَارِ)) بلکہ جمہور اہلِ علم ، امام احمد، شافعی، ابو یوسف، محمد اور متاخرین حنفیہ رحمہما اللہ اس بات کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((اَلأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ تَشھَدُ لَہٗ )) [1] یعنی صحیح احادیث اسی مسلک کی مؤید ہیں۔ ۲۔ جہاں تک منفرد کا تعلق ہے، سو اس بارے میں امام طحاوی اور حافظ ابن عبدالبر; نے اجماع نقل کیا ہے، کہ اکیلا نماز پڑھنے والا ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے گا۔ ۳۔ مأموم کے بارے میں امام شافعی ، اسحاق، ابو بردہ عطاء، داؤد اور ابن سیرین رحمہم اللہ اس بات کے قائل
Flag Counter