Maktaba Wahhabi

494 - 829
لوگو! نماز میں بھاگ کر نہ ملو ۔ جو امام کے ساتھ پاؤ، اسے پڑھ لو، اور جو حصہ فوت ہو جائے، اس کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھ لیا کرو۔‘‘ یعنی ابن حجر رحمہ اللہ زیرِ حدیث ہذا لکھتے ہیں: ((وَاستُدِلَّ بِہٖ عَلٰی أَنَّ مَن أَدرَکَ الاِمَامَ رَاکِعًا، لَم تُحسَب لَہٗ تِلکَ الرَّکعَۃُ لِلاَمرِ بِاِتمَامِ مَا فَاتَہٗ ، لِأَنَّہُ فَاتَہُ الوَقُوفُ ، وَالقِرَائَ ۃُ فِیہِ۔ وَ ھُوَ قَولُ اَبِی ھُرَیرَۃَ ،وَ جَمَاعَۃ، بَل حَکَاہُ البُخَارِیُّ فِی القِرَائَ ۃِ خَلفَ الاِمَامِ عَن کُلِّ مَن ذَھَب اِلٰی وُجُوبِ القِرَائَ ۃِ خَلفَ الاِمَامِ )) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں (کہ) رکوع میں شامل ہونے سے رکعت شمار نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ نے فرمایا: فوت شدہ حصہ کو پڑھ لو! چونکہ اس صورت میں قیام اورقرأت فوت ہو چکے ہیں۔ اس لیے اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے۔ یہی قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کا ہے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے فرمایا: جو صحابہ ’’قراء ۃ خلف الامام‘‘ کو واجب سمجھتے ہیں، وہ سب اس طرح کہتے ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّٰی‘‘ میں اس حدیث پر اس طرح نوٹ دیا ہے۔ جمہورکے لیے اس حدیث میں ہر گز کوئی دلیل نہیں ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے قیام اور قرأت کے لازم ہونے پر مذکور حدیث سے استدلال کیا ہے اور جزماً فرمایا ہے کہ ’’رکعت‘‘ اور ’’رکنِ رکعت‘‘ کے فوت میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ جملہ ارکان کی تکمیل کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اور حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز امام پہلے ادا کر چکا ہے، اسے پورا کیا جائے۔ اس حکم سے کسی رکن کو خارج کرنا مناسب نہیں۔ اس کے بعد ابن حزم فرماتے ہیں: کہ بعض حضرات نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے :’’وھو کاذب فی ذلک‘‘ یعنی اجماع کا مدعی جھوٹا ہے۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: ((وَ ذَھَبَ أبوھریرۃ، و اھل الظاھر، و ابن خزیمۃ، و ابوبکر الضبعی، والبخاری الی أنہ لا تُجزِۂ تِلکَ الرَّکعَۃُ ، اِذَا فَاتَہُ القِیَامُ ، وَ قِرَائَ ۃُ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ، وَ اِن اَدرَکَ الرَّکُوعَ مَعَ الاِمَامِ۔ وَقَد حُکِیَ ھَذَا المَذھَبُ فِی ((الفَتحِ‘ عَن جَمَاعَۃٍ مِنَ الشَّافِعِیَّۃِ، وَ قَوَّاہُ الشَّیخُ تَقِیُّ الدِّینَ السبکی، وَغَیرُہٗ من محدثی الشافعیۃ۔ و رجحہ المقبلی۔ قال: و قد بحثت ھذہ المسئلۃ ، وأحطتھا فی جَمِیع بحثی فقہًا
Flag Counter