Maktaba Wahhabi

238 - 829
یہ ہے کہ وقت کی اطلاع دینا ’’اعمّ ‘‘ہے۔ وقت ہو چکا ہو یا وقت ہونے کے قریب ہو۔ صبح کی نماز کو باقی نمازوں کے درمیان سے اس وقت اذان دینے کے ساتھ اس لیے مخصوص کیا گیا کہ، اوّل وقت نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور صبح غالباً نیند کے بعد واقع ہوتی ہے۔ اس واسطے ایسے آدمی کا تقرر مناسب ہوا، کہ وہ لوگوں کو وقت کے داخل ہونے سے پہلے آگاہ کرے، تاکہ وہ تیار ہو جائیں، اور اوّل وقت کی فضیلت کو پالیں۔[1] ائمۂ شارحینِ حدیث کی وضاحتوں سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ پہلی اذان بھی من وجہ نماز فجر سے متعلق ہے۔ جیسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں مُشَارٌ إِلَیہِ ہے ۔ اسی بناء پر ائمہ مشاہیر، مالک، شافعی، احمد، ابویوسف(رحمہما اللہ ) فرماتے ہیں : ’’اذان ہٰذا دوسر ی اذان سے کافی ہو سکتی ہے۔ دوبارہ اذان کی ضرورت نہیں۔‘‘ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے بھی اسی مسلک کو ترجیح دی ہے۔ مذکورہ مباحث سے بخوبی نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ صبح کی پہلی اذان کا تعلق نہ تو نفلی نماز پڑھانے سے ہے اور نہ سحری کھانے پینے سے۔ چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ۔ اگرچہ اذانِ اوّل کا فعل سحری کھانے کے مباح اوقات میں ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے چونکہ اشتباہ (شبہ) پڑ سکتا تھا کہ شاید اب کھانا پینا حرام ہو گیا، اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ بِلَالًا یُؤذِّنُ بِلَیلٍ ، فَکُلُوا وَاشرَبُوا ، حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابنُ اُمِّ مَکتُومٍ)) [2] ورنہ سحری کھانا تو تمام اوقات میں مباح ہے۔ اذان سے پہلے ہو یا بعد اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ اذان سال بھر جاری رہتی تھی۔ ’’فتح الباری‘‘میں ہے: ((فِیہِ إِشعَارٌ بِاَنَّ ذَلِکَ کَانَ مِن عَادَتِہِ المُستَمِرَّۃِ )) یعنی حدیث کے الفاظ ((إِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّن بِلَیلٍ)) میں دلیل ہے کہ رات کو اذان دینا بلال رضی اللہ عنہ کی دائمی عادت تھی۔ نیز حدیث میں اس کی عِلَّت ((لِیُوقِظَ نَائِمَکُم وَیُرجِعَ قَائِمَکُم)) [3] بیان ہوئی ہے، جس کا تعلق پورے سال سے ہے۔
Flag Counter