Maktaba Wahhabi

44 - 76
کرتے ہیں جو سب مؤلف صاحب کو شیعی اورسبائی نظر آتے ہیں،اسکے بعد زیرعنوان ’’ام المؤمنین بدری صحابیہ ہیں‘‘میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بدرکی لڑائی کے وقت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا بڑی عمر کی تھیں اس لئے بدرمیں شریک ہوئیں حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی عورتیں جنگ میں شریک نہیں ہوتیں تھیں البتہ جنگ کے زخمیوں کی مرھم پٹی کرنے کے لئے جنگ میں ساتھ لے جائی جاتی تھیں اوریہ کام کوئی ایسانہیں کہ اسکے لئے بڑی عمر کاہوناشرط ہو بلکہ کم عمر لڑکیاں بھی یہ کام بخوبی کرسکتی ہیں اس لئے فقط جنگ بدر میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرکت ان کوبڑی عمر کاثابت کرنے لئے قطعی طور پر کافی نہیں ہے اور اس سے کتب صحاح میں وارد بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی نو سال عمربیان والی احادیث پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ان کی عمرنوسال ہونے پرقدیم زمانے سے تمام امت اسلامیہ کا اجماع رہاہے اورصرف اس مغرب زدہ دورمیں کچھ لوگ ایسے پیداہوئے ہیں جوناموس رسالت اورناموس صحابہ کی دہائی دیکر اسکو تسلیم کرنے سے انکار کرنااورکرواناچاہتے ہیں تاکہ کسی طرح صحیح احادیث کے انکار کادروازہ کھل جائے اور اگرایک بار یہ دروازہ کھل گیاتو پھرخواہش پرست لوگ جس حدیث کوچاہیں گے قبول کریں گے اورجس کوچاہیں گے رد کردیں گے اسطرح وہ دین کوموم کی ناک بناکر جس طرف چاہیں موڑ سکیں گے،بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر نوسال کے تعین پرنہ صرف اجماع امت ہے بلکہ اس ضمن میں وارد تمام احادیث صحت کے اعلیٰ درجہ پراورمتواترہیں جو فقط ان باتوں سے رد نہیں ہوسکتیں کہ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا بدرمیں شریک تھیں یااحدمیں شریک تھیں یااسامہ بن زید کی ناک صاف کیاکرتی تھیں وغیرہ۔ خلاصہ کلام: بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے سلسلے میں امت اسلامیہ کا اجماع اور بخاری ومسلم اور دیگر کتب صحاح کی یہ بات ایسا سچ ہے جس کا جھٹلانا تا قیامت کسی کے لیے ممکن نہیں اس کی زبردست دلیل یہ ہے کہ فاضل مؤلف نے اس مسئلہ میں اپنی کتاب کے اکہتر (71) صفحات کالے کئے ہیں مگر ان کو ایک بھی دلیل ایسی نہیں ملی جس کے صاف الفاظ یہ ہوں کہ نکاح کے وقت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر نو نہیں بلکہ 18 یا انیس سال تھی۔
Flag Counter