ہدایت کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں کیونکہ اسرائیل کی آبادی کم ہورہی ہے۔ اگر آبادی اسی رفتارسے گھٹتی رہی تو بڑے قومی نقصان کا سامنا ہوگا۔[1] 1991ء میں امریکی فوج کی مستقبل منصوبہ بندی کے سلسلہ میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کی گئی رپورٹ میں نہ صرف مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے گنجان آباد خطوں ، خصوصاً مسلم ممالک میں جنگوں ، گروہی سیاست اور فیملی پلاننگ کے ذریعہ آبادی کو کم کرنا ضروری ہے۔[2] کاش مسلمان اس حقیقت کو جان سکیں کہ امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے لئے بے دریغ دی جانے والی مدد کا اصل مقصد مسلم ممالک کی بھلائی یا خیر خواہی نہیں بلکہ اس کا اصل ہدف مسلم ممالک کو اسی عذاب یعنی شرح پیدائش کی کمی میں مبتلا کرنا ہے جس میں وہ خود مبتلا ہیں۔ مسلمانوں کے دین اور دنیا کی بھلائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد مبارک میں مضمر ہے ’’زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو ، قیامت کے روز میں دوسرے انبیاء کرام کے مقابلے میں تمہاری وجہ سے اپنی امت کی کثرت چاہتا ہوں۔‘‘ (احمد، طبرانی) خود کشی کے رجحان میں اضافہ: تسخیر کائنات کے جنون میں مبتلا ، لیکن رب کائنات کی باغی اقوام کو رب العالمین نے زندگی کی سب سے بڑی دولت ’’سکون‘‘ سے محروم کررکھا ہے۔عیش پرست، شراب اور زنا میں غرق ، حسب نسب سے محروم اقوام مغرب کی نئی نسلیں جرائم پیشہ ، مایوس اور ڈپریشن کا شکار ہو کر خود کشی میں اپنی نجات تلاش کررہی ہیں۔ [3] |