سوال:میری کچھ ہمسائیاں ہیں جو غیر مسلم ہیں،مجھے ان کے بعض اعمال پر اعتراض بھی ہے تو ہمارا آپس میں ایک دوسرے کے پاس آنا جانا کیسا ہے؟
جواب:اس صفت میں آپ کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اگر اصلاح و خیر خواہی اور تعاون علی البر اور تقویٰ کی نیت ہے تو بہت اچھا عمل ہے۔اس کا حکم بھی دیا گیا ہے۔نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
"قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ:«وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ،۔وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ "
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:واجب ہو گئی ہے میری محبت ان لوگوں کے لیے جو میری خاطر آپس میں محبت رکھتے ہیں،میری خاطر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں،میری خاطر ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں،اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔"[1]
اور ایک فرمان یوں ہے کہ:
"سات قسم کے افراد ہوں گے کہ اللہ عزوجل انہیں اس دن اپنا سایہ عنایت فرمائے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کہیں کوئی سایہ نہ ہو گا۔"[2]
یہاں الفاظ اگرچہ "آدمیوں اور مردوں" کے ہیں مگر یہ بطور مثال کے ہے۔اس کا حکم خواتین کو بھی شامل ہے۔لہذا اگر کسی مسلمان عورت کی زیارت کسی مسلمان عورت سے یا عیسائی وغیرہ عورت سے ہو اور اس نیت سے ہو کہ اسے اللہ کے دین کی دعوت دینی ہے،تو یہ بہترین عمل ہے۔اگر کوئی خاتون دوسری سے ملتی ہے اور اسے بے حجابی یا دیگر گناہوں سے روکتی ہے یا جن امور میں وہ کاہل اور سست ہو تو یہ قابل قدر عمل ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں آتا ہے:(الدين النصيحة) "دین خیرخواہی کا نام ہے۔"[3] اگر وہ یہ قبول کرے تو الحمدللہ،اور اگر قبول نہ کرے تو پھر یہ میل ملاقات چھوڑ دے۔
لیکن اگر میل ملاقات اور باہمی آنے جانے کا مقصد ہی دنیا داری،لہو و لعب اور بے مقصد باتیں اور کھانا پینا ہو تو کافر عورتوں کے ہاں اس طرح سے جانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح سے اس مسلمان کے دین
|