وَكُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ"
"یعنی جو کوئی عورت خوشبو لگا کر نکلے اور کسی قوم کے پاس سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو پا لیں تو وہ زانیہ ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونے والی ہر آنکھ زانیہ ہے۔"[1]
اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے جسم کی کوئی ایسی باس نہیں ہوتی جو صابن سے دور نہ ہو جاتی ہو،کہ غسل کے بعد مزید خوشبو کی ضرورت پڑتی ہو۔اور پھر عورت سے اس بات کا مطالبہ بھی نہیں ہے کہ وہ مسجد جائے بلکہ اس کی اپنے گھر میں نماز مسجد سے کہیں زیادہ افضل ہے۔(مجلس افتاء)
سوال:مسک،عود اور گلاب وغیرہ ایسی خوشبوئیں ہیں کہ ان کی مہک واضح اور نمایاں ہوتی ہے تو عورت کے لیے ان کا استعمال بالخصوص باہر نکلتے وقت کیسا ہے؟ اور اگر کوئی مہمان خواتین آئیں تو انہیں بخور پیش کرنا یا اس طرح کی خوشبو سے ان کی تکریم کرنا کیسا ہے؟
جواب:عورت کا خوشبو لگا کر بازار وغیرہ جانا ممنوع ہے،اسے اس حالت میں باہر نہیں جانا چاہیے اور ان نہ ہی مہمان خواتین کو یہ خوشبو لگانی چاہیے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ وہ انہیں بھی اس مسئلے میں نصیحت اور خیرخواہی کے کلمات کہے۔مثلا یہ کہہ سکتی ہے:ہم چاہتے تو تھے کہ تمہیں خوشبو لگائیں،مگر اور خوشبو لگا کر عورت کا بازار جانا بالکل منع ہے۔اور اس طرح وہ نصیحت کرنے اور اللہ کے حرام کردہ فعل سے بچنے پر عمل کر سکتی ہے۔(عبدالعزیز بن باز)
سوال:کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ نماز تراویح کے لیے مسجد جانے لگے تو خوشبو کی دھونی لے لے (جسے کہ بخور کہتے ہیں) اور کوئی عطر استعمال نہ کرے؟
جواب:عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اس نے بازار سے گزرنا ہو،نماز کے لیے ہو یا کسی اور غرض سے،کہ خوشبو کی دھونی لے یا کوئی اور عطر استعمال کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
" أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا صلاة الْعِشَاء"
"جس عورت نے خوشبو کی دھونی لی ہو وہ ہمارے عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔"[2]
|