پھر اس کے بعد انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک اثر بیان کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حمنہ بنت عبدالرحمٰن ان کے پاس آئیں،ان کی اوڑھنی میں سے اس کی گردن وغیرہ جھلکتی تھی تو وہ انہوں نے پھاڑ ڈالی اور فرمایا:
"کپڑا ایسا لو جو موٹا ہو اور جسم چھپائے۔"[1]
اور وہ کپڑے کہ نیچے سے ان کی کٹائی اس طرح ہوتی ہے کہ گھٹنے یا اس سے نیچے تک وہ چرے ہوئے ہوتے ہیں،اگر ان کے نیچے کوئی چھپانے والا اور بھی زیر جامہ ہو تو بہتر (ورنہ ناجائز ہے)۔اور اگر یہ مردوں کے لباس سے مشابہ ہو تو مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہے۔[2]
اور عورت کے ولی،سرپرست اور ذمہ دار پر لازم ہے کہ وہ اسے ہر حرام لباس سے منع کرے اور پابند کرے کہ وہ میک اپ کر کے یا خوشبو لگا کر باہر نہ جائے۔ولی اس کا ذمہ دار اور مسئول ہے،قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں پوچھ ہو گی،اور قیامت کا دن وہ ہے کہ اس دن کوئی جان کسی سے کوئی کفایت نہیں کر سکے گی،نہ اس سے کوئی سفارش قبول ہو گی،اور نہ کوئی عوض قبول کیا جائے گا،اور نہ کوئی مدد ہو گی۔اللہ عزوجل ہر ایک کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اس کے پسندیدہ ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:سکولوں میں طالبات کی اس وردی کا کیا حکم ہے جس میں بعض اوقات آگے،پیچھے اور اطراف میں ایسے چاک ہوتے ہیں جن سے (جسم ظاہر ہوتا ہے) اور نیچے سے پنڈلیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ سب عورتوں کے ماحول میں ہوتا ہے،اور کیا اس طرح پنڈلی کا ظاہر ہونا "عورہ" (قابل ستر) نہیں ہوتا؟
جواب:جہاں تک میں سمجھتا ہوں،عورت کے لیے واجب ہے کہ ایسا لباس پہنے جو اسے پوری طرح ڈھانپ لے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نبی علیہ السلام کے دور میں عورتیں ایسی قمیص پہنتی تھیں جو ٹخنوں اور قدموں تک ہوتی تھیں،اور بازو ہاتھوں کو بھی چھپا لیتے تھے۔اور سائل نے جو بات پوچھی ہے کہ شلوار پاجامہ کا چاک جس سے پنڈلی ظاہر ہوتی ہے،عین ممکن ہے کہ معاملہ اس سے آگے بڑھ جائے اور اس سے اوپر کا حصہ ننگا کیا جانے لگے۔عورت پر واجب ہے کہ ایسا لباس پہنے جو اسے باحیا اور باوقار بنائے اور اسے چھپانے والا ہو،تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید میں شامل نہ ہو:
"صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا بَعْدُ:قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ
|