Maktaba Wahhabi

600 - 868
کھلانے کی دو صورتیں ہیں:یا تو کھانا تیار کر کے انہیں اس کی دعوت دے حتیٰ کہ وہ اسے کھا لیں یا خشک طعام چاول وغیرہ جو طعام لوگ کھاتے ہیں،ان میں تقسیم کر دے۔گندم (یا اسی قسم کا غلہ) ہر ایک کو ایک ایک مد (اڑھائی پاؤ) پیش کرے یا دوسری قسم کا کوئی اور طعام ہو تو آدھا آدھا صاع (سوا کلو) ہونا چاہیے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ہمارے ہاں یہ رواج ہو چلا ہے کہ لڑکی یا اس کا والد نکاح کا پیغام ٹھکرا دیتے ہیں اور بہانہ یہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی زیر تعلیم ہے،حالانکہ تکمیل تعلیم میں کئی سال پڑے ہوتے ہیں،ایسے لوگوں کو آپ کیا فرمائیں گے؟ اور بعض اوقات لڑکیاں تیس تیس سال کو پہنچ جاتی ہیں اور ان کی شادی نہیں ہوتی ہے؟ جواب:یہ صورت حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برخلاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُو" "جب تمہیں کسی ایسے فرد کا پیغام آئے جس کا دین و خلق پسندیدہ ہو تو اس سے نکاح کر دو۔"[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان یہ بھی ہے کہ: "يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ،مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ،فَلْيَتَزَوَّجْ،فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ " "اے نوجوانو!تم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ شادی کر لے،بلاشبہ یہ عمل نظروں کو بہت زیادہ جھکانے والا اور عصمت کی بہت حفاظت کرنے والا ہے۔"[2] اور نکاح و شادی سے انکار کر دینے سے بے شمار شرعی اور معاشرتی مصالح فوت ہو جاتے ہیں۔میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے جو لڑکیوں کے ولی اور سرپرست ہیں،یہی کہوں گا کہ تکمیل تعلیم یا تدریس کے بہانے سے ان کی شادیوں میں تاخیر نہ کیا کریں۔(اگر کہیں زیادہ ہی ضروری ہو تو) شوہر سے یہ شرط طے کی جا سکتی ہے کہ لڑکی تکمیل تعلیم تک زیر تعلیم رہے گی یا جب تک بچے بچی کی مشغولیت سامنے نہیں آتی ایک دو سال کے لیے تدریس کرتی رہے گی۔مگر ایسے علوم اور ایسے تعلیمی مراحل یونیورسٹی وغیرہ کے جن کی ہمیں کوئی خاص ضرورت نہیں ان میں ترقی کا شوق ایک ایسا مسئلہ ہے جو قابل بحث ہے۔
Flag Counter