Maktaba Wahhabi

585 - 868
لیکن ان کی غیرت نے انہیں کسی باطل اور گناہ میں داخل نہیں کیا تھا۔بہرحال اس عورت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کے گھر لوٹ آئے۔اور اس کے بھائی کو بھی چاہیے۔ اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،کہ اپنی ہمشیرہ کو آمادہ کرے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر چلی جائے،اوروہ اس کی اس نافرمانی میں اس کا مددگار نہ بنے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم نے فرمایا: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا" "وہ آدمی ہم سے نہیں ہے جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف ابھارے۔" [1] سو اس خاتون کو چاہیے کہ اپنے شوہر کے گھر لوٹ جائے۔اگر یہ اس سے انکاری ہو تو یہ "ناشزہ (نافرمان) قرار پائے گی۔ اور آپ کو (شوہر کو) چاہیے کہ اس کا خرچہ بند کر دو،تاہم وہ قاضی کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔اگر قاضی نے اسے طلاق دے دی اور پھر کسی اور سے نکاح کیا تو (یقینا) ایک بڑی مصیبت میں پڑے گی۔جبکہ اس نے ایک ایسی عدالت کی طرف رجوع کیا ہے جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے برخلاف فیصلے کرتے ہیں۔خیال رہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اجازت دیتے ہیں کہ بیوی کو حق ہے کہ عقد نکاح کے وقت شرط کر سکتی ہے کہ یہ شوہر اس پر دوسری عورت سے نکاح نہیں کرے گا۔مگر جمہور ائمہ کرام اس شرط کو باطل قرار دیتے ہیں۔بہرحال اگر اس نے شوہر سے اس بابت شرط کی ہو جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے،تو اس سبب سے اسے حق ہو گا کہ اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔مگر مسند احمد اور سنن میں یہ صورت مروی ہے،حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ،فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ" "اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے بغیر کسی واقعی سبب کے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔"[2] المختصر میری آپ کو (شوہر کو) یہ نصیحت ہے کہ اسے طلاق دے دو۔چونکہ وہ "ناشزہ" ہے،اس لیے اگر اس پر کچھ تنگی کرو کہ وہ اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو جائے تو بھی جائز ہے۔اور بجائے اس کے کہ وہ کسی باطل کی مرتکب ہو یا اس میں ملوث ہو،تم اسے اپنے سے جدا کر دو۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک کنواری لڑکی کے باپ نے اس کی شادی کر دی،لڑکی اس شخص کو ناپسند کرتی ہے،لہذا وہ اس کی
Flag Counter