"ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔"[1]
اور جامع ترمذی میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ)
"جو عورتیں گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کریں وہ فاحشہ ہیں۔"[2]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک معاملہ پیش ہوا کہ ایک نکاح میں صرف ایک مرد اور ایک عورت ہی گواہ تھے،تو انہوں نے فرمایا:"یہ نکاح سر ہے (یعنی راز دارانہ اور چھپا نکاح ہے)،اگر میں اس بارے میں پہلے کوئی وضاحت وغیرہ کر چکا ہوتا تو ان کو رجم کر دیتا۔"[3] ایسے ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ "گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔" [4]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے نکاح میں ولی اور گواہوں کے بارے میں کئی احادیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ "اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم،ان کے تابعین اور ان کے بعد اہل علم کے نزدیک عمل اسی بات پر ہے کہ گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے ۔۔"
اور یہ شرط شرعی مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہیں کہ اس میں انساب اور عزتوں کا تحفظ ہے،بدکاری اور فساد کی راہ بند ہوتی ہے اور میاں بیوی کے مابین جو اختلافات ہو جایا کرتے ہیں اس میں ان کا دفعیہ ہے۔
اور کسی مسلمان کا کسی کتابیہ سے نکاح کرنا،اس بارے میں بھی علمائے شافعیہ کے نزدیک صحیح تر قول کے مطابق دو مسلمان گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔مذکورہ بالا احادیث و آثار اور شرعی مقاصد اور دینی اصول و قواعد کی بنا پر یہی بات راجح ہے۔(مجلس افتاء)
سوال:اگر کسی نے کتابیہ سے شرعی اسلامی طریقے سے نکاح کیا ہو تو کیا اس کے لیے جائز ہے کہ پھر دوبارہ چرچ میں جا کر پادری وغیرہ کے سامنے اپنے اس نکاح کا اعلان و اظہار کرے؟
جواب:کسی صاحب ایمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اس کا نکاح کسی مسلمان یا کتابیہ عورت کے ساتھ
|