"سب سے بڑھ کر پوری کیے جانے کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے سے تم عصمتیں حلال کرتے ہو۔"[1]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے:
(مقاطع الحقوق عند الشروط)
"حقوق شرطوں کے مطابق ہی پورے ہوتے ہیں،ورنہ ٹوٹ جاتے ہیں۔"[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرطوں کو سب سے زیادہ لائق وفا قرار دیا ہے جن کے ذریعے سے آدمی کسی عورت کی عصمت کو اپنے لیے حلال بناتا ہے۔اس مسئلہ میں یہی نص ہے۔ویسے اجماعی طور پر نکاح میں حق مہر اور کلام (ایجاب و قبول) کے علاوہ اور کوئی شرط لازم نہیں ہے،بنیادی شرطیں یہی ہیں۔
اور یہ شرط کیا جانا کہ عورت کا بچہ اس کے پاس رہے گا اور اس کا خرچ شوہر کے ذمے ہو گا تو یہ گویا حق مہر میں اضافہ ہے۔اور حق مہر میں ایک طرح سے جہالت (عدم معلومات) کا احتمال ہو سکتا ہے،جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بصراحت موجود ہے۔علاوہ ازیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی ایسے ہی ہے۔جبکہ مبیع کی قیمت اور مزدور کی مزدوری میں جہالت صحیح نہیں۔اور وہ جہالت (عدم معلومات) جو حق مہر میں جہالت کے مشابہ ہو وہ بالاولیٰ جائز ہو گی۔مثلا جیسے کہ مذہب امام احمد میں ہے کہ اگر کوئی مزدور اس شرط پر رکھا گیا ہو کہ اسے روٹی اور کپڑا دیا جائے گا تو اس شرط میں اعتبار عرف پر ہو گا۔لہذا بچے کے خرچ کی شرط کا مسئلہ بھی عرف ہی سے طے کیا جائے گا۔
اور شوہر اگر یہ شرطیں پوری نہ کرے،اور کسی اور عورت سے شادی کر لے یا لونڈی لے آئے تو عورت کو اپنا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔لیکن آیا وہ عورت خود فسخ کر لے یا قاضی فسخ کرے،اس میں اختلاف ہے۔کیونکہ یہ اختیار ایک اجتہادی اختیار ہے،جیسے کہ شوہر کے نا مرد ہونے یا اس میں کوئی اور عیب ہو تو عورت کو اختیار ہوتا ہے۔اس میں اختلاف ہے۔
ان کے ثبوت میں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں۔اگرچہ ان کی وجہ سے نکاح کے فسخ ہونے میں اختلاف ہے،جیسے کہ آزاد ہونے والی لونڈی کے اختیار کا مسئلہ ہے۔جو لوگ اس کے ثبوت کے قائل ہیں تو ان کے نزدیک قاضی کے فیصلے سے پہلے ہی فسخ ہو جائے گا۔
|