اس حدیث میں یہی بیان ہے کہ وہ بندہ اپنے قرض ہی کی وجہ سے جنت سے روکا گیا تھا۔
لیکن اگر کوئی بندہ کوئی قرض لیتا ہے،اور پھر اسے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے،پھر بھی اس کی ادائیگی سے عاجز رہتا ہے،اور ادائیگی سے پہلے فوت ہو جاتا ہے تو چاہیے کہ بیت المال سے اس کی ادائیگی کی جائے یا مسلمانوں میں سے کوئی اہل خیر اس کی طرف سے ادا کر دے۔ورنہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی طرف سے ادا کر دے گا دنیا میں یا آخرت میں،اور اس بارے میں صحیح احادیث آئی ہیں،مثلا طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الدَّيْنُ دَيْنَانِ:فمَنْ مَاتَ وهُوَ يَنْوِي قَضَاءَهُ فَأَنَا وَلِيُّهُ،ومَنْ مَاتَ ولاَ يَنْوِي قَضَاءَهُ فَذَلِكَ الَّذِي يُؤْخَذُ مِنْ حَسَنَاتِهِ؛ لَيْسَ يَوْمَئِذٍ دِينَارٌ ولاَ دِرْهَمٌ "
"قرض دو طرح سے ہے۔جو شخص فوت ہو گیا اور اس کی نیت تھی کہ وہ اسے ادا کرے (مگر نہیں کر سکا) تو میں اس کا ولی ہوں۔اور (دوسرا) وہ شخص جو فوت ہو گیا اور اس کی ادا کرنے کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی،تو یہی وہ شخص ہے جس کی نیکیاں لے لی جائیں گی (جبکہ) وہاں کوئی درہم و دینار نہیں ہوں گے۔" [1]
سنن ابن ماجہ میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدَّانُ دَيْنًا۔ يَعْلَمُ اللّٰهُ مِنْهُ أَنَّهُ يُرِيدُ أَدَاءَهُ۔ إِلاَّ أَدَّاهُ اللّٰهُ عَنْهُ فِي الدُّنْيَا والاخرة۔"
"جو کوئی مسلمان قرض لیتا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ وہ اسے ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ اس کی طرف سے دنیا اور آخرت میں ادا کر دے گا۔" [2]
مستدرک حاکم کے الفاظ یہ ہیں:
"الا تجاوز اللّٰه عنه و ارضى نمريمه بما شاء"
"ایسے بندے کو اللہ معاف فرما دے گا اور اس کے قرض خواہ کو (اپنی طرف سے) راضی کر دے گا،جیسے چاہے گا۔"[3]
|