کھانا کھلا دیا کریں۔[1]
لہذا آپ کی والدہ کے ذمے یہ ہے کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے،جو طعام علاقے میں معروف ہے۔اگر وہ انتہائی مسکین ہوں نہ دے سکتی ہوں تو ان کے ذمے کچھ نہیں ہے،اور اگر آپ ان کی طرف سے کھلائیں تو یہ بہت بڑا احسان ہے اور اللہ عزوجل احسان کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔(مجلس افتاء)
سوال:ایک خاتون جو پابندی سے شوال کے روزے رکھا کرتی ہے،ایک سال رمضان کی ابتدا میں اس کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی،جس کی وجہ سے وہ شوال میں پاک ہوئی اور رمضان کے روزوں کی قضا دینے لگی،تو کیا وہ شوال کے روزوں کی قضا بھی دے،خواہ شوال کا مہینہ گزر ہی جائے،یا اسے صرف رمضان کی قضا ہی دینی چاہیے۔ اور کیا شوال کے روزے ہمیشہ رکھنے لازم ہیں؟
جواب:شوال کے روزے رکھنا سنت ہیں،فرض نہیں ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جس نے رمضان کے روزے رکھے،پھر اس کے بعد چھ روزے شوال میں بھی رکھ لیے تو یہ گویا زمانہ بھر کے روزے ہوئے۔"[2]
یہ حدیث دلیل ہے کہ ان روزوں کو مسلسل یا متفرق طور پر دونوں طرح رکھا جا سکتا ہے،کیونکہ الفاظ مطلق ہیں،تاہم جلد رکھ لینے میں فضیلت ہے،جیسے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف طور کے بیان میں آیا ہے کہ انہوں نے کہا تھا:
وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ﴿٨٤﴾(طہ:20؍84)
"اور میں تیری طرف جلدی آ گیا ہوں،اے میرے رب،تاکہ تو راضی ہو۔"
علاوہ ازیں اور بھی کئی آیات اور متعدد احادیث میں خیر کے معاملات میں سبقت اور جلدی کرنے کی ترغیب آئی ہے،اور ان روزوں کو ہمیشہ رکھنا کوئی واجب نہیں ہے،لیکن افضل ضرور ہے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے:
"اللہ عزوجل کے ہاں وہی عمل زیادہ محبوب ہے جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے خواہ وہ قلیل اور تھوڑا ہی ہو۔" [3]
|