"لعنت کرے اللہ تعالیٰ یہودونصاریٰ کو،جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔" [1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
(أن لا تدع صورة إلا طمستها ولا قبرًا مشرفًا إلا سويته)
"کوئی تصویر نہ چھوڑنا مگر اسے مٹا ڈالنا،اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دینا۔"[2]
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے (پختہ بنانے)،ان پر بیٹھنے اور ان پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔"[3]
لہذا قبروں پر کوئی تعمیر،قبہ یا مسجد اور سجدہ گاہ بنانا جائز نہیں ہے،اور نہ ہی اسے پختہ بنانا یا اس پر بیٹھنا جائز ہے،اور اس کی بھی اجازت نہیں کہ اس پر چادریں چڑھائی جائیں۔قبر محض ایک بالشت بھر اونچی ہونی چاہیے تاکہ نظر آئے کہ یہ قبر ہے تاکہ اس کی بے ادبی نہ ہو اور لوگ اس پر نہ چلیں۔چنانچہ ہر صاحب علم پر لازم ہے کہ اپنے بھائیوں کو یہ مسائل بتائیں اور سکھائیں،علماء کی ذمہ داری بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اللہ کی شریعت سکھائیں اور مومن ہمیشہ اہل علم سے علم حاصل کرتے ہیں۔اور جو شخص قبرستان کی زیارت کے لیے آئے،صاحب علم پر لازم ہے کہ اسے سکھائے کہ قبرستان کی زیارت کا شرعی طریقہ یہ یہ ہے۔اور قبر پر کوئی تعمیر کرنا،یا قبر والے سے سوال کرنا،یا قبر کی مٹی سے برکت حاصل کرنا،یا قبر کو چومنا یا اس کے پاس نماز پڑھنا،یہ سب دین میں نئے کام ہیں (بدعت ہیں)،قبر کے پاس نماز پڑھنا یا دعا یا قراءت قرآن کرنا بدعت ہے۔بلکہ قبر سے برکت حاصل کرنا یا شفاعت چاہنا یا بیماری سے شفا کی دعا کرنا یہ شرک اکبر کی قسمیں ہیں۔
اگر کوئی یوں کہے:اے میرے آقا!اللہ کے ہاں میری شفاعت کر،یا میت کو پکارے کہ میری مدد کر یا میرے مریض کو شفا دے وغیرہ تو یہ اعمال قطعا جائز نہیں ہیں۔کیونکہ میت کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین صورتوں کے:صدقہ جاریہ،یا علم جس سے نفع ہوتا ہو،یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔[4]
|