Maktaba Wahhabi

274 - 868
کی نماز ایسے ہی تھی۔"[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ یا بعض دوسرے حضرات سات صدیوں بعد اس میں علت نکالنے لگے ہیں،جبکہ سیدنا ابوحمید ساعدی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشاہدہ فرمایا تھا،اور وہ ان حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل آپ کے بڑی عمر یا فربہ ہو جانے کی وجہ سے تھا تو یہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر چھپا نہ رہتا،وہ ضرور اس بات کو سمجھ جاتے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " المجموع شرح المهذب " میں اسی سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ "چاہیے کہ اس سنت کی پابندی کی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔" [2] اور جب کوئی امام جلسہ استراحت نہ کرتا ہو،تو مقتدی کو اپنے امام کی پیروی کرنی چاہیے۔ کیونکہ امام کی پیروی نماز کے واجبات میں سے ہے۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: "إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ،فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا،وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا،وَإِذَا قَالَ:سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ،فَقُولُوا:رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ،وَإِذَا سَجَدَ،فَاسْجُدُوا،وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا،فَصَلُّوا جُلُوسًا أجمعين" "امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو،جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو،اور جب وہ سمع اللّٰه لمن حمده کہے تو تم کہو " ربنا لك الحمد " جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو،اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو،اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔"[3] (محمد ناصر الدین الالبانی ) اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ امام کی اقتداء لازمی اور ضروری ہے،خواہ اگر وہ کوئی رکن مثلا قیام چھوڑ دے (تو مقتدی کو وہ چھوڑنا ہو گا)۔[4]
Flag Counter