تشہد میں بہت مختصر بیٹھتے تھے۔
یہ حدیث اولا سند کے اعتبار سے کمزور ہے،اور دوسرے باعتبار معنی بھی جو اس سے نکالا گیا ہے کمزور ہے۔دیکھیے بندہ جب آخری تشہد میں درود شریف پڑھتا ہے جیسے کہ درمیانی تشہد میں پڑھا ہے تو اس میں مزید دعائیں بھی پڑھتا ہے۔جیسے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آیا ہے کہ "نبی علیہ السلام نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو جایا کرے تو اسے چاہیے کہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرے،یعنی جہنم،عذاب قبر،فتنہ مسح دجال اور فتنہ زندگی و موت سے۔[1] بلکہ بعض اہل علم تو اس تعوذ کے وجوب کے قائل ہیں،جیسے کہ امام ابن حزم ہیں اور جناب طاؤس نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ اس نے نماز میں یہ تعوذ نہیں پڑھا ہے تو انہوں نے اس کو حکم دیا کہ اپنی نماز دہرائے۔[2] مگر اس مسئلے میں جمہور کی رائے زیادہ صحیح ہے کہ یہ تعوذ مستحب ہے (واجب نہیں)۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مسیء الصلاۃ میں اس کا حکم نہیں دیا ہے۔اور یہ حدیث مسیء الصلاۃ نماز کے ارکان و واجبات جاننے کے بارے میں اصل ہے۔دعا کے سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے یہ دعا پڑھی:
(اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَما أَخَّرْتُ،وَما أَسْرَرْتُ وَما أَعْلَنْتُ،وَما أَسْرَفْتُ،وَما أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي،أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ،لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ)
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جو تشہد کے بیان میں ہے،اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پھر چاہیے کہ تمہارا ایک وہ دعا پڑھے جو اسے پسند ہو،اور اس کے ذریعے سے اپنے رب سے مانگے۔"
الغرض آخری تشہد کے بعد دعا کرنا بالخصوص مشروع اور سنت ہے۔چنانچہ اگر بندہ یہ اذکار اور وہ دعائیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی احادیث میں آئی ہیں سب جمع کر لے تو یہ کلمہ شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلاۃ کے برابر بن جاتی ہیں۔اس طرح آخری تشہد مجموعی طور پر درمیانی تشہد سے دوگنا ہو جاتا ہے۔[3] (محمد بن عبدالمقصود)
الغرض یہ حدیث ہر لحاظ سے ضعیف ہے۔
|