والوں کو اکٹھے کر کے قیام کروانے میں اس بات کی صراحت نہیں کہ آیا وہ مسجد میں تھا یا گھر میں؟ میرے نزدیک یہ مسئلہ قابل تحقیق ہے کہ عورت کے لیے قیام رمضان میں افضل کیا ہے،مسجد حرام یا اس کا گھر؟ یہ فرمان تو ثابت ہے کہ "عورت کے لیے اس کا گھر افضل ہے۔"[1] الا یہ کہ کوئی واضح نص مل جائے جو یہ ثابت کر دے کہ عورت کے لیے مسجد حرام کی نماز افضل ہے۔ہاں اگر وہ (عورت) مسجد حرام میں آئی ہو اور وہاں نماز میں شامل ہوئی ہو تو امید وہ اس ثواب کی مستحق ہو گی جو آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ "مسجد حرام کی ایک نماز دیگر مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ گنا افضل ہے۔"[2] لیکن اگر عورت کے گھر سے باہر نکلنے میں فتنہ ہو تو بلاشبہ اس کا گھر میں رہنا ہی افضل ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:وہ خواتین جو رمضان المبارک میں عمرہ کے لیے جاتی ہیں ان کے لیے اپنی نمازیں فرض یا تراویح مسجد حرام میں ادا کرنا افضل ہے یا اپنی اقامت گاہ میں؟
جواب:سنت سے یہی ثابت ہے کہ عورت کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے،وہ مکہ ہو یا کوئی اور مقام۔تاہم آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو،اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔" [3] آپ کا یہ فرمان مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے تھا اور مسجد نبوی میں نماز کی جو فضیلت ہے وہ واضح ہے اور یہ اس لیے ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا اس کے لیے زیادہ با پردہ اور فتنے سے محفوظ تر ہے،لہذا اس کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا بہتر اور عمدہ قرار دیا گیا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:عورت کے لیے رمضان کی راتوں میں کون سا عمل زیادہ فضیلت والا ہے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے یا مسجد میں،جبکہ مسجد میں وعظ و نصیحت بھی ہوتی ہے اور آپ ان عورتوں سے کیا کہنا چاہیں گے جو مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھتی ہیں؟
جواب:عورت کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھے۔کیونکہ آپ علیہ السلام کے فرمان
"و بيوتهن خير لهن "[4]
|