اسی طرح اگر یہ صورت ہو کہ جب وہ پاک ہو اور نماز کے وقت میں سے ایک رکعت ادا کرنے کا بھی وقت باقی ہو تو وہ اس وقت کی نماز پڑھے جس میں وہ پاک ہوئی ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
"جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پا لی اس نے عصر کی نماز پا لی۔" [1]
تو جب وہ عصر کے وقت پاک ہوئی ہو اور غروب ہونے میں ایک رکعت کا وقت بھی باقی ہو تو وہ عصر کی نماز پڑھے اور اسی طرح اگر وہ سورج طلوع ہونے سے پہلے پاک ہوئی اور طلوع ہونے میں ایک رکعت کا وقت بھی باقی ہو تو وہ اس فجر کی نماز ادا کرے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:ایک عورت کو تقریبا نو دن خون آتا رہا اور اس نے نماز چھوڑ دی،اس خیال سے کہ یہ ماہانہ ایام کا خون ہے مگر چند دن کے بعد جو خون آیا اور معلوم ہوا کہ یہی خون (جو اسے بعد میں آیا) اس کی حقیقی عادت کا خون تھا،تو کیا اسے اپنے ان پہلے دنوں کی نماز دہرانی چاہیے یا نہیں ۔۔؟
جواب:افضل یہی ہے کہ یہ اپنے ان پہلے دنوں کی نمازیں دہرائے جن میں اس نے شبہ میں پڑ کر نماز نہیں پڑھی۔اور اگر نہ بھی دہرائے تو کوئی حرج نہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو اس کے سابقہ دنوں کی نمازیں دہرانے کا حکم نہیں دیا تھا۔اس نے بیان کیا کہ:
"مجھے استحاضہ آتا ہے بڑا سخت،اور میں اس میں نماز چھوڑ دیتی ہوں،تو آپ نے اسے حکم دیا کہ تو چھ یا سات دن حیض کے بنا اور مہینے کے باقی دنوں میں نماز پڑھا کر۔" [2]
تو آپ نے اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کے دہرانے کا حکم نہیں دیا۔لہذا اگر وہ یہ نمازیں دُہرا لے تو بہت بہتر ہے۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس پر سوال اور مؤاخذہ ہو کہ تو نے مسئلہ دریافت کیوں نہ کیا تھا۔اور اگر نہ بھی دہرائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:ایک عورت حیض سے تھی اور حیا کے باعث نمازیں پڑھتی رہی،اس کے اس عمل کا کیا حکم ہے؟
جواب:کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب وہ حیض سے ہو یا نفاس میں تو وہ نماز پڑھے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
|