مہینے گزر جاتے ہیں اور زوجین باہم مشغول ہوتے رہتے ہیں اور انزال نہیں ہوتا ہے،اور جہالت کی بنا پر غسل نہیں کرتے ہیں۔تو یہ صورت حال بڑی تشویش ناک ہے۔ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے رسول پر جو نازل کیا ہے اس کی حدود جانے اور پہچانے۔الغرض جب شوہر اپنی بیوی سے ہم بستر ہو تو (مشغول ہونے کی صورت پر) خواہ انزال نہ بھی ہو تو دونوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔جیسے کہ ابھی مذکورہ بالا حدیث میں بیان ہوا ہے۔
3: عورت کو حیض و نفاس کا آنا:ان عوارض کے خاتمے پر عورت کے لیے واجب ہے کہ غسل کرے۔جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّٰهُ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴿٢٢٢﴾(البقرۃ 2؍222)
"اور حیض کے دنوں میں عورتوں سے علیحدہ رہو،اور ان کے قریب مت جاؤ حتیٰ کہ وہ پاک ہوجائیں،تو جب وہ خوب پاکیزگی حاصل کر لیں تو ان کے پاس آؤ،جہاں سے کہ تم کو اللہ نے حکم دیا ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔"
اور احادیث میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے استحاضہ والی عورت کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے حیض کے ایام میں بقدر (نماز وغیرہ سے) رکی رہے پھر غسل کرے۔[1] اور نفاس والی کا بھی یہی حکم ہے اور اس پر غسل واجب ہے۔
اور حیض و نفاس سے غسل کا طریقہ ایسے ہی ہے جیسے کہ جنابت سے غسل کیا جاتا ہے۔[2]مگر بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر یہ بیری کے پتوں سے نہائے تو یہ مستحب ہے کیونکہ اس میں طہارت اور نظافت زیادہ ہے۔
اور کچھ علماء نے اسباب وجوب غسل میں "موت" کو بھی شمار کیا ہے۔ان کی دلیل آپ علیہ السلام کا وہ فرمان ہے جو آپ نے اپنی فوت ہو جانے والی بیٹی کے متعلق عورتوں کو دیا تھا کہ:
"اسے غسل دو،تین یا پانچ یا سات بار یا اس سے زیادہ،اگر ضرورت محسوس کرو تو۔"[3]
اور ایسے ہی آپ نے اس آدمی کے متعلق فرمایا تھا جو حالت احرام میں عرفات میں اپنی اونٹنی سے گر کر
|