سوال:اگر کوئی ماں اپنے بچے کو طہارت کرائے اور وہ خود با وضو ہو تو کیا اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا؟
جواب:(1) اگر عورت اپنے بچے کو طہارت کرائے اور اسے اس کی شرمگاہ کو ہاتھ لگانا پڑے تو اسے دوبارہ وضو کرنا واجب نہیں ہے،وہ صرف اپنے ہاتھ دھو لے۔کیونکہ صنفی جذبات کے بغیر شرمگاہ کو ہاتھ لگا لینے سے وضو واجب نہیں ہوتا ہے۔اور یہ معلوم و معروف ہے کہ ماں جب اپنے بچے بچی کو طہارت کرواتی ہے تو اس کے ذہن میں کہیں صنفی جذبات نہیں ہوتے ہیں،تو اس صورت میں اسے نجاست سے اپنے ہاتھ دھو لینا چاہییں اور بس۔دوبارہ وضو کرنا اس پر واجب نہیں۔(محمد بن صالح عثیمین)
جواب:(2) اگر کوئی کسی دوسرے کی شرمگاہ کو صنفی جذبات کے تحت ہاتھ لگائے تو اس سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔اور شہوانی جذبات کے بغیر ہاتھ لگانے میں اختلاف ہے۔اور راجح یہ ہے کہ چھوٹے بچے بچی کی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے،کیونکہ یہ تسکین جذبات کی جگہ نہیں ہے،اور عملی زندگی میں اس کی ضرورت بہت زیادہ پڑتی رہتی ہے،اگر اس سے وضو ٹوٹنے کا کہا جائے تو اس سے لوگوں کو بہت زیادہ مشقت ہو گی نیز اگر اس سے وضو ٹوٹتا ہوتا تو یہ بات صحابہ اور ان کے بعد کے علماء میں بہت مشہور ہوتی۔[1](عبداللہ بن جبرین)
سوال:کیا ناخن اور بال کاٹنے اور جلد صاف کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب:انسان اپنے بال کاٹے،ناخن تراشے یا جلد صاف کرے اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔میں اس سوال کی مناسبت سے یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جسم سے بال کاٹنا یا مونڈنا تین طرح سے ہے:
1: وہ بال جن کے دور کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے،مثلا زیر ناف اور بغلوں کے بال صاف کرنے اور مونچھیں کتروانے کا حکم ہے۔
2: وہ بال جن کا کاٹنا شریعت میں منع ہے،مثلا داڑھی کے بال۔آپ نے اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ "و فروا اللحى " داڑھیاں بڑھاؤ"[2] جبکہ ابروؤں کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے۔
3: وہ بال جن کے متعلق شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے،مثلا سر،پنڈلیاں،بازو اور باقی جسم کے بال۔تو جب شارع علیہ السلام ان کے متعلق خاموش ہیں تو کچھ علماء نے کہا ہے کہ ان کا مونڈنا منع ہے۔کیونکہ یہ اللہ
|