اور ابو قلابہ رحمہما اللہ سے ایسے ہی منقول ہے۔جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے ایک خاتون کے متعلق جو زچگی کی تنگی میں تھی،کہا کہ اس کے لیے کچھ قرآنی آیات لکھی جائیں اور پھر دھو کر اسے پلا دی جائیں۔اور توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔و صلى اللّٰه على محمد (محمد بن ابراہیم آل الشیخ)
سوال: وسیلے (اور طفیل) کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ ایک بڑا اہم سوال ہے،ہم چاہتے ہیں کہ تفصیل سے اس کا جواب دیا جائے۔
توسل مصدر ہے فعل توسل يتوسل کا۔یعنی کسی چیز کو وسیلہ اور ذریعہ بنانا جو انسان کو اس کے مقصد تک پہنچا دے۔
وسیلے کی دو قسمیں ہیں:(۱)۔صحیح اور جائز وسیلہ (۲)۔غلط اور ناجائز وسیلہ۔صحیح اور جائز وسیلے کی چھ صورتیں ہیں:
1۔ اللہ عزوجل کے اسمائے حسنیٰ کا وسیلہ اختیار کرنا،اور اسے اس کے ناموں کا واسطہ دینا اور اس کی دو صورتیں ہیں۔اول:یہ کہ عمومی انداز میں مجمل طور پر اس کے ناموں کا واسطہ وسیلہ اختیار کیا جائے۔مثلا جیسے کہ غم و پریشانی کے ازالہ کے لیے دعا میں آیا ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:((اللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ،ابْنُ عَبْدِكَ،ابْنُ أَمَتِكَ،نَاصِيَتِي بِيَدِكَ،مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ،عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ،أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ،أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ،أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ،أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ،أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي،وَنُورَ صَدْرِي،وَجَلَاءَ حُزْنِي،وَذَهَابَ هَمِّي))[1] تو اس دعا میں عمومی انداز میں اسمائے الٰہیہ کا توسل لیا گیا ہے:یعنی (أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك) (میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنا نام رکھا ہے)۔
اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنی حاجت اور ضرورت کے لحاظ سے کسی خاص اسم الٰہی کا واسطہ اختیار کرے۔مثلا اس حدیث میں جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ مجھے کوئی دعا تعلیم فرمائیں جو میں نماز میں پڑھا کروں،تو آپ نے انہیں یہ دعا سکھلائی:
(اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا،وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ. فَاغْفِرْ لِي
|