Maktaba Wahhabi

77 - 114
سے کوئی انکار نہیں۔ اور اختلاف صرف اختیار و افضل میں ہے نہ کہ جواز میں۔‘‘ اور آگے وہ رقمطرار ہیں کہ [ الکبیری شرح المنیۃ اور البدائع] میں جو رفع الیدین کو مکروہ تحریمی کہا گیا ہے،یہ قول میرے نزدیک متروک ہے۔ ہاں اگران کے پاس صاحب ِمذہب کی طرف سے کوئی نقل ہو تو پھر وہ معذور شمار ہوں گے،ورنہ ایک ایسا مسئلہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ما بین متواتر و ثابت ہے،اسے مکروہ تحریمی کہنا میرے نزدیک انتہائی شدید قول ہے۔اور آگے موصوف فرماتے ہیں: ’’متاخرین حنفیہ میں نسخ ِ رفع یدین کا قول مشہور ہو گیا ہے،جسے انھوں نے شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ سے لیا ہے۔ اور شیخ نے یہ بات امام طحاوی رحمہ اللہ کی متابعت کرتے ہوئے کہی ہے۔ اور جب میرے نزدیک ان سے بھی قدیم تر علماء [مثلاً صاحب ِ احکام القرآن علّامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ و رازی رحمہ اللہ ]سے رفع یدین کا جواز ثابت ہے،اور احادیث بھی انہی کی تائید کرتی ہیں تو رفع یدین کے جواز کے قول کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے،اور اس کے خلاف جو بھی قول ہے وہ نہیں سنا جائے گا اور جو سنتا ہے وہ سنتا رہے۔‘‘ [1] ( 5) … علماء ِ احناف میں سے ہی صاحبُ البدر الساری لکھتے ہیں : ( اِنَّ الرَّفْعَ مُتَوَاتِرٌ اِسْنَاداً وَعَمَلاً وَلَمْ یُنْسَخْ مِنْہُ وَلَاحَرْفٌ،اِنَّمَا بَقِيَ الْکَلَامُ فِي الأَفْضَلِیَّۃِ کَمَا صَرَّحَ بِہٖ أَبُوْ بَکْرٍ الْجَصَّاصُ فِيْ أَحْکَامِ الْقُرْآنِ)۔ ’’رفع یدین کرنا سند و عمل ہر دو اعتبار سے متواتر ہے۔ اس سے ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا،صرف افضلیّت کے بارے میں کلام ہے،جیسا کہ امام ابوبکر جصّاص نے احکام القرآن میں صراحت کی ہے۔‘‘
Flag Counter