اختصار سے کام لیتے ہوئے اُنہیں یہاں ذکر کردیا ہے۔ اور اب اس فصل کے عناوین کو اختتام تک پہنچاتے ہوئے ان کے دلائل کو بالترتیب بیان کیے دیتا ہوں کہ جن کے ساتھ کتاب ہذا کی تمام فصول مکمل ہوجائیں گی۔ ان شاء اللہ۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمَنَّۃُ۔ اللہ کریم مجھے بھی ان کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہو کر نفع پہنچائے اور آپ کو بھی۔(اللہم آمین) الف:سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ؛ ((فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ۔))[1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ بطورِ زکوٰۃ فرض کردیا جو کہ دورانِ روزہ کوئی بیہودہ کام اور فحش کلامی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے لیے روزوں کی طہارت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور فقراء و مساکین کے لیے خوراک۔ ‘‘ ب:سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ؛ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر فرض کردیا کھجوروں میں سے(جن کی یہ خوراک ہوں اُن کے لیے)ایک صاع(ٹوپہ)ادا کرنا یا جو میں سے(جن کی یہ خوراک ہوں ان |