نہیں رکھتا تو اسے ایام حج میں تین روزے رکھنے ہوں گے اور سات روزے اپنے ملک واپس جانے کے بعد۔ اور دونوں ہی کو متمتع کہا جاتا ہے۔ لیکن سعی کے بارے میں دونوں کا حکم بدل جاتا ہے، جمہور علماء کے نزدیک متمتع دوسعی کرے گا۔ پہلی سعی عمرہ کے طواف کے ساتھ اور دوسری حج کے طواف کے ساتھ، اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ(حجۃ الوداع میں)جن لوگوں نے عمرہ کے بعد احرام کھول دیا تھا اور حج تمتع کی نیت کر لی تھی انھوں نے دو سعی کی۔ پہلی عمرہ کے طواف کے ساتھ اور دوسری حج کے طواف کے ساتھ۔ لیکن قارن صرف ایک سعی کرے گا۔ اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لیتا ہے تو وہی سعی کافی ہو گی ورنہ پھر حج کے طواف کے ساتھ سعی کرے گا۔ جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے کہ متمتع دو سعی کرے گا اور قارن ایک، اور یہ کہ قارن کو اختیار ہے چاہے طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لے بلکہ یہی افضل ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ آپ نے طواف قد وم کے ساتھ سعی بھی کر لی تھی ، اور چاہے تو سعی کو مؤخر کر دے اور حج کے طواف کے ساتھ سعی کرے۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے سہولت |
Book Name | حج بیت اللہ اور عمرہ کےمتعلق چند اہم فتاویٰ |
Writer | شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز |
Publisher | وزارت اسلامی امور و اوقاف و دعوت ارشاد، سعودی عرب |
Publish Year | 1421ھ |
Translator | نامعلوم |
Volume | |
Number of Pages | 44 |
Introduction |