سے تر نہ ہو تب تک فرض غسل نہیں ہوتا۔ کیا اس جھلی کی موجودگی میں اگر سر کی جھلی کے نیچے والی جلد خشک رہ جائے یقینا رہ جاتی ہے ۔ تو کیا غسل نہ ہوگا نیز جھلی صرف تین ماہ سر کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ اور تین ماہ کے بعد دوبارہ اس کو سلوشن کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ (محمد اسحاق صدیقی ، ضلع نارووال)
ج: اس جھلی کی موجودگی میں نہ غسل جنابت ہوتا ہے نہ غسل حیض و نفاس اور نہ ہی وضوء۔ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس جھلی کو بٹن کے ساتھ سر پر کَس دیا جائے اور وضوء غسل کے وقت اتار کر غسل وضوء کرلیا جائے البتہ و اصلہ و مستوصلہ پر لعنت والی احادیث [1] [لعنت کی اللہ تعالیٰ نے بال ملانے والی اور ملوانے والی پر اور جو گود کردے اور جو گدوائے۔ ‘‘] کے پیش نظر تو اس جھلی ہی سے اجتناب ضروری ہے ، پھر مسئلہ پوچھنے بتانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ واللہ اعلم۔
[ ’’ اسماءؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبیؐ سے پوچھا کہ میری بیٹی کو حصبہ (جلدی بیماری) لگی جس سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں اور میں نے اس کی شادی کردی ہے۔ کیا میں اس میں مصنوعی بال جوڑ سکتی ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بال جوڑنے والی پر اور جڑوانے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ ‘‘ ] [2] ۶ ؍ ۴ ؍ ۱۴۲۱ھ
س: سر کے بال منڈوانا سنت ہے یا رکھنا سنت ہے؟ (ظفر اقبال، ضلع نارووال)
ج: سر کے بال وغیرہ ، جمہ یا لمہ رکھنے مسنون ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے بال رکھے ہیں صرف حج و عمرہ کے موقع پر منڈائے ہیں ۔
[ ’’ براءؓ فرماتے ہیں میں نے لمبے بالوں والے سرخ لباس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا۔ آپؐ کے بال کندھوں پر پڑتے دونوں کندھوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پست قد تھے اور نہ ہی دراز قد تھے۔ ‘‘[3]
’’ عائشہؓ فرماتی ہیں میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کندھوں کے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تھے۔ ‘‘[4]
|