والی حدیث ضعیف ہے اور اِسکے ضُعف پر تمام محدّثینِ کرام کا اتفاق ہے ۔ العرف الشذی ص: ۳۰۹ ۔ 2۔ اپنی کتاب ’’ فیض الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ سے کسی مرفوع حدیث میں تیرہ رکعتوں سے زیادہ نمازِ تراویح ثابت نہیں ہے ۔فیض الباری ۱؍۴۲۰ ۔ 3۔ جبکہ اپنی کتاب ’’ کشف الستر ‘‘ میں لکھا ہے کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ماہِ رمضان میں گیارہ رکعاتِ تراویح اور تین رکعات وتر کی جماعت کروائی تھی جیسا کہ ابن خزیمہ و ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں اور محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے۔کشف الستر ص : ۲۷ 1۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی اپنی کتاب لطائفِ قاسمیہ مکتوب سوئم میں لکھتے ہیں : (یازدہ از فعلِ سرورِ عالم ﷺ آکد ازبست )۔ لطائفِ قاسمیہ، مکتوب سوئم ۔ ’’ نبی اکرم ﷺ سے جو گیارہ رکعتیں مع الوتر ثابت ہیں وہ بیس سے زیادہ معتبر ہیں ‘‘ ۔ 2،3۔ فتح سرّ المنّان فی تائید مذہب النعمان میں لکھتے ہیں کہ جیسا کہ آجکل بیس رکعاتِ تراویح کو سنّت بتایا جارہا ہے ،یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے، آپ ﷺ کے زمانۂ مبارکہ میں آپ ﷺ کے حکم کے بموجب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل رہا جیسا کہ بخاری شریف میں موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں گیارہ رکعات [ مع الوتر ] سے زیادہ نمازِ تراویح نہیں پڑھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے حال سے خوب واقف تھیں۔ فتح سرّ المنّان فی تائید مذہب النعمان ص : ۳۲۷ نیز دیکھیئے :الحق الصریح للقاسمی ۔ علّامہ ابن نُجیم بحر الرائق میں لکھتے ہیں : ’’ہمارے مشایخ کے اصول کے مطابق آٹھ رکعتِ تراویح سنّت ہے کیونکہ نبی ﷺ سے مع وتر گیارہ رکعاتِ تراویح ہی ثابت ہیں جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی |