Maktaba Wahhabi

95 - 105
سے منع کیا ہے۔‘‘)اِس کی روسے قبر پر مٹی وغیرہ کی زیادتی کرنا ممنوع ہے۔اورابوداؤد کی حدیث میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ:(’’ قبر پر اصل سے زیادہ مٹی نہ ڈالیں۔‘‘) مکروہ بمعنی حرام اب تک جتنے آئمہ وعلماء اوربزرگوں کے اقوال اور کتابوں کے حوالے گزرے ہیں۔ان میں بدعات ِ مذکورہ کو مکروہ کہا گیا ہے۔اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے یعنی یہ تمام بدعات ِ شنیعہ حرام ہیں۔کیونکہ جن امور کو بدعت کہا جارہا ہے ان کے مکروہ ہونے کی دلیل حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور حدیث میں نہی کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ نہی کی اصل تحریم(حرام ہونا)ہوتا ہے۔ کراہت کی دوقسمیں ہیں: (۱)۔تنزیہی (۲)۔تحریمی کتب ِ فقہ میں لکھا ہے: (اَحَدُھُمَا مَا کُرِہَ تَحْرِیْماً وَھُوَالْمَحْمَلُ عِنْدَ اِطْلَاقِھِمْ الْکَرِاھِیَۃُ)(شامی) ’’یعنی ان دونوں میں سے ایک حرام کے معنوں میں ہے۔وہ تب ہے جب آئمہ اپنے کلام میں مطلق کراہت کا لفظ استعمال کریں۔‘‘ فقہ حنفیہ کا قاعدہ’’البحر‘‘ میں موجود ہے: (اِنَّ الْمَکْرُوْہَ اِذَا اُطْلِقَ فِیْ کَلَامِھِمْ فَالْمُرادُمِنْہُ التَّحْرِیْمُ اِلاَّ اَنْ یَّنُصَّ عَلٰی کَرِاھَۃِ التَّنْزِیْہ) ’’جب آئمہ کے کلام میں مطلقاً مکروہ کہا گیا ہو تو اس سے مراد حرام ہوتاہے،سوائے اس کے کہ تنزیہہ کی کوئی نص موجود ہو۔‘‘ ’’المصطفی ‘‘ کی عبارت ہے:
Flag Counter