Maktaba Wahhabi

68 - 105
(قبول نہیں ہوگی)اور اللہ کی قسم!میں نہیں جانتا مگر لگتا ہے کہ وہ لوگ اکثر تم میں سے ہونگے۔‘‘ یہ کہہ کر لوٹ گئے۔ایک صحابی حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں: ((رَأَیْنَاعَآمَّۃَ اُوْلٰئِٓکَ الْخَلْقِ یُطَاعِنُوْنَ یَوْمَ النَّھْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ)) ’’ ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو دیکھا کہ جنگ ِنہروان میں وہ ہمارے خلاف خارجیوں کی طرف سے لڑے تھے۔‘‘ بظاہر وہ نیک کام تھا‘ذِکرِ الٰہی تھا مگر اپنی من مانی اور اپنی رائے سے طریقۂ ذِکر اختیار کیا تو انجامِ کا ر خوارج میں سے ہوگئے۔گویا ذکر اذکار کی ہر وہ محفل جو غیر شرعی انداز سے منعقد ہو،وہ باعثِ ثواب نہیں بلکہ وبالِ جان ہے۔ذرا آپ موجودہ دَور کی محافل ِ ذکر وعبادت پر نظر ڈالیں اور ان کے کارِ ثواب یا باعثِ عذاب ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی فرمالیں۔ 2۔ظُہرِاحتیاطی: ہمارے کچھ دوست نمازِ جمعہ کے بعدظُہر کے چار فرض بھی پڑھتے ہیں،جوکہ بدعت ہے۔انھیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ جمعہ کی شرائط میں شک ہے،جن کی بناء پر جمعہ کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے متعلق یقین نہیں ہوسکتا،لہٰذا ظہر بھی پڑھ لینی چاہیئے،تا کہ جمعہ نہ ہو تو ظہر ہوجائے۔ اس عملی انحطاط کے زمانہ میں یہ بدعت بڑی ہی عجیب ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک نماز فرض کریں۔مگر ہم دونوں کی پابندی کریں۔بھئی سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر جمعہ کے لیے شہر‘سلطان اور قاضی شرط ہیں تو جمعہ ہوگیا۔پھر ساتھ ہی ظہر کا کیا مطلب؟اور اگر ان شرئط کا سِرے سے ثبوت ہی کوئی نہیں‘نہ اللہ کے احکام سے،نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے،تو جمعہ صحیح ہے۔اور اگر یہ شرائط
Flag Counter