Maktaba Wahhabi

86 - 148
رضوان اللہ اجمعین کی فہم و فراست تھی قیامت تک آنے والے ایسے تمام علماء ان میں شامل ہیں یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی دجال سے مقابلہ کرنے والوں کےساتھ ہوگا۔ ہم جنہیں سلف اہل الحدیث کہتے ہیں ان سے یہی لوگ مراد ہیں۔یہ بات بھی یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ نسبت اس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتی جب تک اس کے دعوے دار کا عمل منہج نبوی کے مطابق نہ ہو۔کیا کوئی صاحب عقل یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ نسبت صرف زبانی کلامی یا صرف دعوی کرنے سے ثابت ہو جاتی ہے۔یا اس دعوی سے شک کا ازالہ ہو سکتا ہے؟ یا اس منہج کے اچھے برے ہونے میں شک ہو یا اس کو اپنانے اور چھوڑنے میں تذبذب کا شکار ہو اور پھر بھی یہ نسبت صحیح ثابت ہو جائے۔(کوئی عقلمند ایسا تصور نہیں کر سکتا بلکہ)یہ نسبت اپنے دعوے دار سے تقاضا کرتی ہے کہ اپنے اسلام کے دعوی کو سچ کر دکھائے۔ایسا دعوی جوہرقسم کے عیب سے پاک ہو۔ اور کوئی بھی انسان ہو کسی دور کا کسی طبقے کا وہ اس دعوی میں اس وقت سچا شمار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے عقیدے،کردار و عمل اور عبادت میں منہج نبوی کے ساتھ جڑا ہوا نہ ہو،ہر کام اس کے مطابق کرتا ہو اور ہر معاملے میں اسی کی طرف لوٹ کر آتا ہو۔جب تک اسے موت نہ آجائے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے یہ تمام باتیں ایک ہی عمدہ جملے میں جمع کر دی ہیں۔فرماتے ہیں "ہم اہل الحدیث سے مراد وہ لوگ نہیں لیتے جنہوں نے صرف احادیث کے سننے یا لکھنے یا روایت کرنے پر اکتفا کیا ہو بلکہ ہماری مراد اہل الحدیث سے یہ ہے کہ جس نے احادیث کے حفظ کرنے اس کا علم حاصل کرنے انہیں ظاہراً و باطناً سمجھنے کا حق ادا کیا ہو اور ظاہراً اور باطناً ان کی اتباع کرتا ہو۔اسی طرح اہل القرآن بھی۔ان لوگوں میں کم از کم جو صفت اور عادت ہوتی ہے وہ ہے قرآن و حدیث سے محبت ان کے بارے میں تحقیق ان کے معانی کی تحقیق ان دونوں سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس پر عمل کرنا۔
Flag Counter