Maktaba Wahhabi

47 - 93
ترجمہ:’’اﷲتعالیٰ سے ڈرو اورمیرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں۔‘‘ (سورہ ہود آیت ۷۸) قوم پر آپ کی منت سماجت کا کوئی اثر نہ ہوا تو عاجز اور مجبور ہوکر یہاں تک کہہ ڈالا کہ ھَـؤُلَائِ بَنَاتِی اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ترجمہ:’’اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں (نکاح کے لئے)موجود ہیں(سورہ حجرات آیت ۷۱) بدبخت قوم اس پر بھی راضی نہ ہوئی تو پیغمبر کی زبان پربڑی حسر ت کے ساتھ یہ الفاظ آگئے لَوْ أَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً أَوْ آوِیٓ اِلَی رُکْنٍ شَـدِیدٍ ترجمہ:’’اے کاش ‘میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کردیتا یا کوئی مضبوط سہارا ہوتا جس کی پناہ لیتا۔‘‘(سورہ ہود آیت ۸۰)حضرت لوط علیہ السلام کے اس واقعہ کو سامنے رکھئے اور پھر غور فرمائیے کہ پیغمبر کی بات کے ایک ایک لفظ سے بے بسی ‘بے کسی اور مجبوری کس طرح ٹپک رہی ہے ‘سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا خدائی اختیارات کا مالک کوئی شخص مہمانوں کے سامنے یوں اپنے دشمن سے منت سماجت کرنا گوارا کرتا ہے ‘اور پھر یہ کہ کوئی صاحب اختیار اور صاحب قدرت شخص اپنی بیٹیوں کو یوں بدکردار اوربدمعاش لوگوں کے نکاح میں دنیا پسند کرتا ہے ؟ ایک نظر سید الانبیاء سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر بھی ڈال کر دیکھئے ‘مسجد الحرام میں نماز پرھتے ہوئے مشرکین نے سجدہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے آکر اپنے بابا کو اس مشکل سے نجات دلائی ‘ایک مشرک عقبہ ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں چادر ڈال کر سختی سے گلاگھونٹا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچائی ‘طائف میں مشرکین نے پتھر مار مار کر اس قدر زخمی کردیا کہ آپ کے نعلین مبارک خون سے تربہ تر ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالاخر شہر سے باہر ایک باغ میں پناہ لی ‘طائف سے واپسی پر مکہ معظمہ میں داخل ہونے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مشرک مطعم بن عدی کی پناہ حاصل کرناپڑی ‘ مشرکین مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر رات کی تاریکی میں آپ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ‘جنگ احد میں ایک مشرک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک پتھر مارا جس سے آپ نیچے گرگئے اور ایک نچلا دانت ٹوٹ گیا اسی جنگ میں ایک دوسرے مشرک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر اس زور سے تلوار ماری کہ خود کی دوکڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں جنہیں بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے نکالا‘حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا پر بدکاری کا بہتان لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس دن تک شدید پریشانی میں مبتلا رہے حتّٰی کہ
Flag Counter