Maktaba Wahhabi

42 - 56
دنیویہ انماھی اخرویۃ انتھیٰ تلخیص الخبیر ص۱۶۲ میں بہیقی سے نقل فرمایا الانبیاء احیاء عندربھم کالشھداءیہ عنداللہ حیات برزخی اخروی ہوسکتی ہے اسے کبھی کوئی سمجھ دار دنیوی حیات تو نہیں کہہ سکتا۔ موسیٰ علیہ السلام کی نماز حج، ہارون علیہ السلام، یونس علیہ السلام ، حضرت مسیح علیہ السلام اور دجال کا احرام یہ سب حقائق مثالی ہیں برزخی ، دنیوی تو نہیں ہوسکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا حضرت ابراہیم فوت ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لہ ظئران تکملان رضا عہ فی الجنۃ(مشکوٰۃص۵۰۲) اس کی مدت رضاعی جنت میں عورتیں پوری کریں گی" آپ کے خیال سے حضرت ابراہیم کو دنیوی زندگی ملی۔ حالانکہ نہ وہ نبی ہیں نہ شہید اس مطلب کی بیسیوں احادیث سنت کی کتابوں میں ملتی ہیں اگر ان سے دنیوی حیات ثابت کی جائے تو پھر یوں فرمائیں کہ دنیا میں کوئی مرتا ہی نہیں۔ حدیث ۱۰،۹،۸ : بالکل حیات دنیوی کا پتہ نہیں دیتیں معلوم نہیں مولانا زاہد صاحب نے انہیں کیوں نقل فرمادیا ہے سابقہ گزارشات کے بعد ان احادیث پر مزید گفتگو سے کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ حکایت اور قصص : حضرت جعفر کی شہادت ، بعض ارواح کا اپنے قرضوں کے متعلق اطلاح دینا، کتاب الروح ، شرح الصدور ، خصائص کبٰری وغیرہ میں اس قسم کی کئی حکایات مرقوم ہیں اولاً یہ قصے شرعاً حجت نہیں ثانیاً عقائد کے لیے یہ دلائل قطعاً قابل اطمینان نہیں ثالثاً ، اس سے حیات ِ روح اور ان کی نقل وحرکت پر استدلال کیا جاسکتا ہے حیات جسمانی یا حیات دنیوی ان سے ثابت نہیں ہوتی رابعًا خواب اور کشوف کا ظہور جب غیر نبی سے ہوتو صاحب کشف ممکن ہے اس پر یقین کرلے، عامۃ المسلمین اسکے پابند نہیں واقعہ حرہ میں سعید بن مسیب کا مسجد نبوی میں اذان سننا مدعا کے لحاظ سے بالکل بے معنی ہے سعید بن مسیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز نہیں پہچانتے تھے ممکن ہے یہ آواز کسی پاک باز جن یا فرشتہ کی ہو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کیسے ثابت ہوئی۔ ابن القاسم رحمہ اللہ سے مولانا نے انسان کے چار دور ذکر فرامائے ہیں، رحم، دنیا، برزخ، آخرت ، ہر دوسرا دور پہلے سے بہتر اور اس وسعت پر غور فرمائیں یہ دلیل آپ کے خلاف ہے یا
Flag Counter