Maktaba Wahhabi

10 - 56
اشاعت دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درس گاہ کے مجلہ میں ہوئی ہے۔ مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دانش مندوں نے مقامی مصالح کی بنا پر مرکزی اکابر کو استعمال فرمایا ہے اور وہ حضرات بلا تحقیق وتبیین استعمال ہوگئے ہیں۔ اس اختلاف سے بریلوی مکتب فکر جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کی اصلاح کے لیے مسئلہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ راقم الحروف مولانا محمد انظرا اور مولانا زاہد الحسینی سے ذاتی طور پر نا آشنا ہے اس لیے اس جسارت پر معافی چاہتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بحث مسئلہ کی حد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ وماتوفیقی الاباللہ۔ پاکستان کی تشکیل کے بعد بریلویت نے جس طرح انگڑائیاں لینا شروع کی ہیں۔ اور قادیانیت اور رفض کو جس طرح فروغ ہو رہا ہے۔ اس کے اثرات اور اہل توحید مبلغین کی مشکلات میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے اور ان میں دن بدن ترقی کی جو رفتار ہے اسے شائد ہندوستان کے اکابر نہ سمجھ سکیں۔ پاکستان کے دیوبندی اکابرین جن مصالح اور مقتضیات وقت میں روز بروز گرفتار ہورہے ہیں۔"پیری مریدی" کے جراثیم جس عجلت سے یہاں اثر انداز ہو رہے ہیں اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس پورے ماحول سے آشنا ہیں۔ احسان ہوتا اگر دور کے حضرات اس میں مداخلت نہ فرماتے ہمیں معلوم ہے کہ حکومت پاکستان کے مزاج اور یہاں کے اہل ہوا کے مزاج میں جس قدر توافق کارفرما ہے اس کا علاج مصلحت اندیشوں سے نہیں ہوگا اور نہ ہی مدارس کی مسندیں اس عوامی فتنہ کا مداوا ہو سکیں گی۔ یہ طویل سفر طے ہونے تک ممکن ہے مریض زندگی کی آخری گھڑیاں شمار کرنے لگے۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک اس مسئلے کو جو صورت دی جارہی ہے چونکہ اس سے بہت سی شرکیہ بدعات کے دروزے کھل جاتے ہیں اس لیے نامناسب ہوگا اگر اصلاحی تحریک پر اجمالی نظر ڈال لی جائے جو ان بدعات کا قلع قمع کرنے کے لیے وجود میں آئی تھی کیونکہ اس سے مسئلہ کا پس منظر سمجھنے میں مددمل سکے گی گو اس طرح قدرے طوالت ضرور ہوگئی ہے۔ اصلاحی تحریکات کا مدّوجزر: گیارہویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرہویں صدی تک طاغوتی طاقتیں گوکافی مضبوط تھیں مگر خدا تعالیٰ کی رحمت کی تابانیاں بھی نصف النہار پر ہیں۔ اس ثنا میں اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی ایک باوقار جماعت کو حوصلہ دیا اور کام کا موقع مہیا فرمایا مصلحین کے پرشکوہ
Flag Counter